روٹی مہنگی، غم سستے ہیں

   

کورونا کی تباہی … حکومت کی لاپرواہی
روزگار اور معیشت کا نیا بحران

رشیدالدین
غفلت اور لاپرواہی کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے اور نتائج نقصان کی صورت میں برآمد ہوتے ہیں۔ لاپرواہی اگر انفرادی سطح پر ہو تو نقصان بھی انفرادی نوعیت کا اور محدود ہوتا ہے لیکن اگر یہ غلطی حکومت سے ہو تو نقصان کی لپیٹ میں سارا سماج آسکتا ہے ۔ لاپرواہی جس نوعیت کی ہوگی، نقصانات بھی اسی انداز کے ہوں گے۔ انفرادی غفلت قابل معافی ہوسکتی ہے لیکن حکومت کی سطح پر لاپرواہی قوم کے نقصان کا موجب بن جاتی ہے اور یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ لاپرواہی کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک نادانستہ اور دوسری دانستہ ۔ ہندوستان ان دنوں حکومت کی دانستہ غفلت اور لاپرواہی کا خمیازہ بھگت رہا ہے ۔ کسی اور شعبہ میں لاپرواہی سے کام لیا جاتا تو پھر بھی نظر انداز کیا جاتا تھا لیکن صحت کے شعبہ میں اپنی ذمہ داری کی تکمیل میں ناکامی کے ذریعہ نریندر مودی حکومت نے انسانیت کے ساتھ جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔ اگر انسانی حقوق سے متعلق انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس سے رجوع ہوں تو حکومت بے گناہی ثابت نہیں کرپائے گی ۔ ملک میں جاری کورونا کے قہر کے لئے مرکزی حکومت ذمہ دار ہے اور کورونا کی دستک کے باوجود وہ خواب غفلت کا شکار رہی ۔ مرکز کے ساتھ بعض ریاستوں کا رویہ بھی غیر ذمہ دارانہ رہا اور دانستہ لاپرواہی کے ذریعہ عوام کو موت کے منہ میں ڈھکیل دیا گیا ۔ ملک میں ہزاروں نے نہیں بلکہ لاکھوں افراد موت اور زندگی کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عوام کو کورونا کے بے رحم ہاتھوں کے حوالے کردیا گیا۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ دنیا کے 100 زائد ممالک کورونا کا شکار ہوئے۔ ایسے میں صرف ہندوستان میں پھیلاؤ کے لئے حکومت کو ذمہ دار کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے ؟ اس کا جواب دنیا بھر کے ممالک میں کورونا کی تباہی کے اعداد و شمار ہیں۔ جن ممالک نے احتیاطی تدابیر اختیار کیں ، وہاں بہت جلد صورتحال معمول پر آگئی اور حکومتوں کی چوکسی سے متاثرین اور اموات کی تعداد پر قابو پالیا گیا لیکن ہندوستان میں حکومت کی لاپرواہی میں کورونا کو قدم جمانے کی دعوت دی ہے ۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جہاں کورونا کی تباہی جاری تھی، کانگریس کے قائد راہول گاندھی نے فروری میں حکومت کو کورونا کے امکانی خطرہ سے آگاہ کیا تھا

لیکن حکومت نے چونکہ اپوزیشن کی بات نہ سننے کی قسم کھا رکھی ہے ، لہذا راہول گاندھی کا مذاق اڑایا گیا۔ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ کورونا سے ہندوستان کو کوئی خطرہ نہیں ۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا دورہ مودی کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں تھا ۔ ہزاروں افراد کو اسٹیڈیم میں جمع کرتے ہوئے ٹرمپ کی جئے جئے کار کی گئی ۔ فروری میں کورونا نے ہندوستان میں دراندازی کردی تھی اور کیسیس بھی منظر عام پر آنے لگے تھے لیکن مارچ کے تیسرے ہفتہ تک بھی پارلیمنٹ کا سیشن جاری رہا ۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو مودی حکومت کو لاک ڈاؤن کا خیال آیا ۔ طبی ماہرین کے مطابق اگر فروری میں حکومت چوکس ہوجاتی تو آج کے حالات پیدا نہ ہوتے۔ مرکز کا یہ حال تھا تو دوسری طرف تلنگانہ کے چیف منسٹر نے 42 ڈگری درجہ حرارت میں وائرس کے خاتمہ اور پیراسیٹامول گولی کو علاج بتایا۔ اتنا ہی نہیں ایک گریجن خاتون رکن اسمبلی نے عوام میں ماسک تقسیم کرنے کا مشورہ دیا تو ان کا مذاق اڑایا گیا ۔ نتیجہ کیا نکلا، وہ خود عوام کے سامنے ہے۔

تلنگانہ کا دارالحکومت حیدرآباد ڈینجر زون میں شامل ہوچکا ہے ۔ گرمی سے وائرس کو مارنے اور ماسک کا مذاق اڑانے والے چیف منسٹر کے سی آر خود کورونا سے بچنے فارم ہاؤز منتقل ہوچکے ہیں۔ بات حکومتوں کی لاپرواہی سے شروع کی گئی تھی اور ڈھائی ماہ کے لاک ڈاون کے بعد بھی یہی رویہ برقرار ہے جو متاثرین اور اموات کی تعداد میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔ جب کیسیس کی تعداد کم تھی تو لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا۔ اب جبکہ کیسیس کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے تو حکومت مزید رعایتوں کے ذریعہ عوام کو موت کے منہ میں ڈھکیل رہی ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ لاک ڈاون میں نرمی کے بعد کورونا بے قابو ہوگیا لیکن حکومت کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ جس وقت تحدیدات کے ذریعہ عوامی زندگی کو بچانے کی ضرورت تھی، حکومت نے معیشت پر توجہ مرکوز کرلی۔ ملک کی اہم ریاستیں کورونا کی لپیٹ میں ہیں لیکن حکومت نے عوام کو کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق کورونا کے 90 فیصد کیسیس ملک کی 8 ریاستوں میں ہیں جن میں تلنگانہ بھی شامل ہے۔ 86 فیصد اموات 6 ریاستوں میں واقع ہوئی ہے۔ اترپردیش، آسام ، مغربی بنگال اور پنجاب نے دوبارہ اپنے طور پر لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ۔ کورونا کی سنگین صورتحال میں حکومت کا فرائض سے پہلو تہی کرنا لاپرواہی نہیں تو کیا ہے۔ نریندر مودی جو لاک ڈاون کے دوران عوام سے مختلف تجربات کراتے رہے، آج عوام کے سامنے آنے تیار نہیں۔ کبھی گھروں کی بجلی گل کرائی گئی اور موم بتی جلائی گئی ۔ کبھی تالی تو تھالی بجاکر کورونا کو بھگانے کا ڈرامہ کیا گیا لیکن جب تمام تجربات ناکام ہوگئے تو مودی عوام کا سامنا کرنے اور انہیں منہ دکھانے سے بچ رہے ہیں۔

ملک کو ایک طرف کورونا تو دوسری طرف بیروزگاری جیسے سنگین مسئلہ کا سامنا ہے۔ وائرس کے ذریعہ انسانی جانوں کے نقصان کے علاوہ معاشی بحران پیدا ہوچکا ہے۔ آنے والے دنوں میں وائرس پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن معیشت کو بحال کرنا آسان نہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق معیشت میں جاریہ گراوٹ کا اثر آئندہ 5 تا 10 برسوں تک برقرار رہے گا۔ لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں ملک میں لاکھوں افراد بیروزگار ہوچکے ہیں۔ مائیگرنٹ ورکرس جو کورونا کے خوف سے اپنے آبائی مقامات واپس ہوگئے، کھانے کو ترس رہے ہیں۔ لاک ڈاون میں صنعتی اور تجارتی اداروں کو بری طرح متاثر کیا ہے جس کے نتیجہ میں لاکھوں مزدوروں کو کام سے نکال دیا گیا۔ جو ملازمین برقرار ہیں ، انہیں مکمل تنخواہ ادا کرنے کے موقف میں ادارے نہیں ہیں۔ صورتحال غریب اور امیر طبقہ کیلئے اس قدر پریشان کن نہیں ، جتنی کہ اوسط اور کم اوسط طبقہ کے لئے ہے۔

یہ دونوں گروپ عزت نفس کی خاطر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاسکتے ۔ حکومت ہر سال لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن کورونا نے لاکھوں کو بیروزگار کردیا۔ اندرون ملک یہ بحران جاری تھا کہ بیرونی ممالک میں مقیم لاکھوں تارکین وطن واپسی کی تیاری میں ہیں۔ خلیجی ممالک کے علاوہ امریکہ اور یوروپ میں کورونا کے قہر نے لاکھوں افراد کا روزگار چھین لیا۔ لاک ڈاؤن سے عین قبل جو لوگ چھٹیوں میں آئے تھے ، وہ واپس جانے تیار ہیں لیکن جانے کا کوئی انتظام نہیں ہے جس کے نتیجہ میں ان کا روزگار چھن سکتا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق مختلف ممالک میں لاکھوں ہندوستانی افراد جن میں طلبہ بھی شامل ہیں، معاشی مسائل کا شکار ہوچکے ہیں اور واپسی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ ملک کے موجودہ بحران میں بیرونی ممالک سے واپسی کے بعد صورتحال مزید سنگین ہوسکتی ہے۔ ان حالات سے نمٹنا حکومت کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ کورونا کے بحران کے درمیان چین نے ہندوستان کیلئے سرحد پر مسائل پیدا کردیئے ہیں۔ ہندوستانی علاقہ پر چین کے قبضہ کے بارے میں دونوں جانب سے متضاد دعوے کئے جارہے ہیں۔ ہندوستانی حکومت کبھی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ چین نے علاقہ سے دستبرداری اختیار کرلی لیکن چین کے حکام ہندوستان پر الٹا دراندازی کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ حقیقت حال کیا ہے یہ تو صرف سرحد پر متعین فوجی جانتے ہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر لے کر سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے سرحدی علاقوں کا دورہ کیا اور یہ تشہیر کی گئی کہ انہوں نے گلوان وادی میں ہندوستانی سپاہیوں سے ملاقات کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گلوان سے 250 کیلو میٹر کے فاصلہ پر مودی نے دورہ کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مودی 250 کیلو میٹر کے فاصلہ کو سرحد تسلیم کرچکے ہیں ؟ اگر مودی کے دورہ سے ہندوستانی فوج کے حوصلے بلند ہوئے تو کیا ان کے جانے سے پہلے فوج کے حوصلے پست تھے؟ دراصل اپنی تشہیر کے لئے فوج کا استعمال کرنا ملک کے ساتھ بدخدمتی ہے ۔ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے گلوان کے دورہ کا اعلان کیا تھا لیکن انہیں روک کر مودی تنہا نکل پڑے تاکہ سارا کریڈٹ خود حاصل کرلیں۔ وزیراعظم کے اس دورہ کے بعد سے راجناتھ سنگھ چین کے معاملات میں خاموش ہوچکے ہیں۔ اب تو نیپال نے ہندوستانی چیانلس پر پابندی عائد کرتے ہوئے ہندوستان کو آنکھ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ساغر صدیقی نے ملک کے حالات پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
جس بستی میں ہم بستے ہیں
روٹی مہنگی، غم سستے ہیں