روپیہ کی قدر گر رہی ہے ’’مہاتما‘‘ خاموش ہیں!

   

روش کمار
امریکی ڈالر کے مقابلے ہندوستانی روپئے کی قدر دن بہ دن کمزور ہوتی جارہی ہے، گرتی جارہی ہے۔ روپیہ کی قدر گررہی ہے تو گر ہی رہی ہے۔ ماضی میں بھی روپیہ کی قدر و قیمت گرا کرتی تھی۔ اب بھی گر رہی ہے۔ آٹھ سال قبل جب ڈالر کے مقابلہ روپیہ کی قدر گر رہی تھی، اس وقت ایک مہاتما نے کہا تھا کہ جیسے ہی ایک عظیم شخصیت آئے گی، روپیہ کی قدر ڈالر کے مقابل 40 روپئے ہوجائے گی، لیکن اس سے دگنا یعنی 80 روپئے ہوگئی ہے۔ روپئے کی قدر میں گراوٹ ابھی باقی ہے۔ یہ گرتی ہی جائے گی تاہم پہلے جن مہاتما نے اپنا منہ کھولا تھا، اب پوری طرح اس مسئلہ پر اپنا منہ بند کرلیا ہے۔ وہ کچھ بھی بولنے سے قاصر ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس وقت مہاتما اقتصادیات یا معاشیات میں کوئی روحانی کورس کررہے ہوں۔ ہاں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ ڈالر کے مقابل روپیہ کی قدر گھٹنے سے دُلہنوں کو پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہندوستانی دولہے جہاں سو سال قبل تھے، اب بھی وہیں ہیں۔ جاریہ سال بھی وہ اپنے گلے میں نوٹوں کے ہار ڈالے شادی کیلئے آنے والے ہیں۔ جس طرح آپ نہیں سمجھ سکتے کہ دولہے نوٹوں کا ہار کیوں پہنتے ہیں۔
حال ہی میں وویک کول نے لکھا ہے کہ 20 جون کو امریکی ڈالر کی قیمت 78 روپئے تھی، صرف 9 دن میں یعنی 29 جون کو 79 روپئے ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ روپئے کی قیمت میں تیزی سے گراوٹ آرہی ہے۔ دلچسپ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ نریندر مودی حکومت کی تائید و حمایت کرنے والی جماعتوں اور لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ جنوری 2013ء میں ڈالر کی قیمت 55 روپئے تھی جو ستمبر 2013ء میں گر کر 65 روپئے ہوگئی۔ 9 ماہ میں 15% کمی درج کی گئی لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی تائید و حمایت کرنے والے 2013ء اور 2014ء میں ڈالرس کے مقابل روپئے کی قدر میں گراوٹ کی بات کرتے ہیں۔ موجودہ رجحان پر کچھ نہیں بولتے۔ کیا یہی لوگ یہ یاد دلانا چاہیں گے کہ 2018ء کے دس ماہ میں روپیہ کی قدر میں 15% سے زیادہ گراوٹ آئی۔ کیا 2018ء میں بھی روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری تھی، اس دوران بھی کیا کورونا وائرس کی وباء نے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ آپ کو بتادیں کہ 31 ڈسمبر 2014ء میں ایک ڈالر کی قیمت 63.33 روپئے تھی اور اب ایک ڈالر 80 ہندوستانی روپیوں کے مساوی ہوگیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گزشتہ 8 برسوں میں (مودی کے پہلے اور دوسری میعاد میں) روپیہ کی قدر میں 26% گراوٹ آئی، کیا روپیہ کی قدر میں اس قدر زیادہ گراوٹ کا آنا اچھی بات ہے؟ ہرگز نہیں۔ مودی حکومت کے حامی عجیب و غریب مسئلوں پر بات کرتے ہیں لیکن روپئے کی قدر میں آئی۔ 26% کمی پر بات کیوں نہیں کرتے؟ مرکزی وزیر فینانس نرملا سیتا رامن نے ایوان پارلیمنٹ میں دی گئی وضاحت میں بتایا کہ 31 ڈسمبر 2015ء کو ایک ڈالر کی قیمت 66.33 روپئے تھی، اس کے ایک سال بعد 31 ڈسمبر 2016ء کو وہ گرکر 67.95 روپئے ہوگئی۔ 31 ڈسمبر 2017ء کو مستحکم ہوکر ڈالر کے مقابلے 63.93 پیسے ہوئی یعنی 2016ء کے مقابل تقریباً 4 روپئے محفوظ ہوئی۔ ڈسمبر 2018ء میں یہ قیمت 69.79 روپئے 31 ڈسمبر 2019ء کو 71.27 روپئے ہوگئی اور اس وقت سے ہی ڈالر کے مقابل روپئے کی قدر میں زبردستی کمی واقع ہوئی جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔31 ڈسمبر 2019ء کو ڈالر کے مقابلے روپیہ کی قدر 71.27 روپئے ہوتی تب سے ہندوستانی روپئے کمزور ہوتا جارہا ہے چنانچہ سال 2020ء میں روپئے کی قدر 73.5 روپئے ہوگئی اور یہ قیمت 31 ڈسمبر 2021ء کو 74.30 روپئے ہوگئی جس پر اقتصادی پلیٹ فارمس پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور پھر سب نے دیکھا کہ 11 جولائی 2022ء کو ڈالر کے مقابل روپئے کی قدر 79.41 اور اب 80 روپئے ہوگیا۔ خود ریزرو بینک آف انڈیا نے کہا ہے کہ اس کے پاس درآمدات کیلئے صرف 19 ماہ کا بیرونی زرمبادلہ باقی رہ گیا ہے۔ اس کے برعکس وزیر فینانس نے پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے یہ بتایا کہ امریکہ کی سنٹرل بینک نے بھی سود کی شرحوں میں اضافہ کیا ہے۔ اس وجہ سے سرمایہ کار اپنی رقومات ڈالرس میں واپس لے رہے ہیں چنانچہ مالی سال 2022-23ء میں 14 ارب ڈالرس نکال لئے گئے۔ نہ صرف ڈالرس ہندوستان کو خیرباد کہہ رہا ہے بلکہ ہندوستانی شہری بھی ہندوستان کو خیرباد کہنے لگے ہیں۔ جس کا ثبوت خود ہمارے مرکزی مملکتی وزیر اُمور ِ داخلہ نتیانند رائے کا وہ بیان ہے جو انہوں نے لوک سبھا میں دیا۔ انہوں نے بتایا کہ سال 2019ء میں 1,44,017 ہندوستانی باشندوں نے اپنی شہریت چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی شہریت حاصل کی ہے۔ سال 2021ء میں ہندوستانی شہریت کو خیرباد کہنے والے لوگوں کی تعداد 1,63,370 رہی۔ ان میں سے 78,284 لوگوں نے امریکی شہریت حاصل کی۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہمارے ملک میں ترقی ہورہی ہے تو پھر اس قدر کثیر تعداد میں لوگ ہندوستانی شہریت کو کیوں چھوڑ رہے ہیں۔ آخر یہ لوگ اسمارٹ سٹی انڈیا کو چھوڑ کر جارہے ہیں، ڈالر اور روپئے سے متعلق مباحث دور کرنسیوں کے مقام و مرتبہ پر ہی مباحث نہیں بلکہ معیشت کی حالت اور موقف پر مباحث ہیں۔ ہم نے سوچا تھا کہ 2016ء میں مودی جی نے اچانک ملک میں جو نوٹ بندی نافذ کی، اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ کرنسی ایکسچینج میں جو کرپشن ہے، وہ ختم ہوجائے گا۔ کرپشن ختم ہونا تو دور کرنسی نوٹوں کا چلن یا گردش دوگنی ہوگئی۔ 2016ء میں 16 لاکھ کروڑ روپئے مالیتی کرنسی گردش میں تھی۔ اب حال یہ ہے کہ ملک میں 31 لاکھ کروڑ روپئے کی کرنسی گردش میں یا استعمال میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نوٹ بندی بالکلیہ طور پر ناکام رہی۔ ساتھ ہی پرانے نوٹ تبدیل کرنے کی دکان بھی بند پڑی ہے۔ نہ صرف نئے کرنسی نوٹ مارکٹ میں آئے ہیں بلکہ نوٹ کی قدر بھی کمزور پڑگئی ہے۔ آپ ذرا غور کریں جب بھی روپئے کی قدر میں کمی آتی ہے تو ملک کی سیاست 2014ء تک پہنچ جاتی ہے۔ ایک اور دلچسپی کی بات آپ کو بتانا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ہندوستانی سیاست میں روحانی ماہرین اقتصادیات کا عمل دخل بہت زیادہ ہوگیا ہے اور یہ سلسلہ سال 2012ء سے شروع ہوا۔ اس طرح کے ماہرین عوام کو یہ بتانے لگے تھے کہ بہت جلد ایک ایسا وقت آئے گا جب ایک ہندوستانی روپیہ ایک امریکی ڈالر کے مساوی ہوگا۔ 2012ء سے 2014ء کے درمیان یہی کہا جارہا تھا کہ روپئے کی قدر میں گراوٹ کی ذمہ دار ڈاکٹر منموہن سنگھ کی زیرقیادت یو پی اے حکومت ہے۔ ڈاکٹر سنگھ تقریر کرنا نہیں جانتے تھے، ایسے میں انہوں نے خود کو تاریخ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور تاریخ نے ہندوستان کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ ہر پریشانی، ہر تباہی اور ہر چھوٹ کو 2012ء اور 2014ء سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ اب تو حکومت کی ہٹ دھرمی کا یہ حال ہوگیا ہے کہ وزیر فینانس نرملا سیتا رامن لوک سبھا میں روپئے کمزور ہونے سے متعلق اپوزیشن کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ جاپان کی کرنسی ین، برطانیہ کی کرنسی پاؤنڈ اور یوروپی کرنسی یورو کی قدر میں ڈالر کے مقابل کافی کمی آئی ہے اور یہ کمی ہندوستانی روپیہ سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو ڈالر کے مقابل ہندوستانی روپیہ صرف 7 فیصد ہی گرا ہے۔ ایک بات آپ کو یاد دلانا ضروری ہے، وہ یہ کہ 2013ء میں نرملا سیتا رامن نے اپنے ٹوئٹ کے ذریعہ پرزور انداز میں کہا تھا کہ اگر روپے کی قدر گرتی ہے تو حکومت کا بوجھ بڑھ جاتا ہے، اب وہ روپئے کی قدر میں گراوٹ پر کچھ اور کہتی ہیں۔ اب تو انہوں نے یہ کہنا بھی شروع کردیا کہ فی الوقت عالمی سطح پر معاشی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ ان سے عام ہندوستانی شہری یہ سوال کرسکتے ہیں کہ اگر ان کے خیال میں 2013ء اور 2022ء کی صورتحال بالکل مختلف ہے تو پھر جولائی 2008ء میں عالمی بازار میں خام تیل کی قیمت 132 ڈالر فی بیارل تھی۔ اُس وقت ملک میں پٹرول 50 روپئے اور ڈیزل 34 روپئے فی لیٹر فروخت کیا جاتا تھا، لیکن 2021ء میں خام تیل کی قیمت فی بیارل 100 ڈالر سے بھی کم رہی لیکن عوام کو 100 روپئے فی لیٹر پٹرول اور ڈیزل فروخت کیا گیا۔ اب تو پٹرول کی قیمت فی لیٹر 110 روپئے ہے، اس بارے میں حکومت کیا جواب دے گی؟