ریزرو بینک سے حکومت کو مدد

   

سفینہ پھر بھی بچ گیا
شکستہ بادبان تھا
ریزرو بینک سے حکومت کو مدد
مرکزی حکومت کے مسلسل دعووں کے باوجود ملک کی معیشت میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ حکومت حالانکہ مسلسل یہ دعوی کر رہی ہے کہ ملک کی معیشت مستحکم ہے اور وہ پانچ ٹریلین ڈالرس تک پہونچنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ کئی شعبہ جات میں معاشی انحطاط پیدا ہوگیا تھا اور اس سست روی کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں ملازمتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں اور صنعتی پیداوار میں اور فروخت میںکمی ہی درج کی جا رہی ہے ۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے تین دن قبل کسی کچھ راحت سازی کے اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا اس کے نتیجہ میں مارکٹ میں قدرے بہتری آئی تھی لیکن بحیثیت مجموعی معیشت پر اس کے توقع یا ضرورت کے مطابق مثبت اثرات مرتب ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے ۔ یہ تاثر بھی پیدا ہونے لگا ہے کہ وزیر فینانس نرملا سیتارامن نے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے وہ کافی تاخیر سے کئے گئے اور کافی کم اعلانات ہیں۔ حکومت کو وقفہ وقفہ سے معیشت میں بہتری اور سدھار لانے کیلئے ایک جامع منصوبہ اور عملی طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے اور اسی جانب حکومت کی کوئی توجہ نظر نہیں آتی ۔ آٹو موبائیل شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور اس میں لاکھوں افراد روزگار اور ملازمتوں سے محروم کردئے گئے ہیں ۔ جو تازہ ترین خبر آئی ہے اس کے مطابق ماروتی سوزوکی میں اب تین ہزار کنٹراکٹ ملازمتوں کو ختم کردیا گیا ہے ۔ خاص طور پر دو پہئیہ گاڑیوں کی صنعت پر معاشی سست روی کے بہت زیادہ اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سرکاری شعبہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے اس صورتحال سے مسلسل غفلت برتی جا رہی ہے اور اس کا اثر ملک کی مارکٹوں پر بھی ہوا ہے ۔ جب مارکٹیں زیادہ متاثر ہوگئیں تب حکومت نے کچھ اقدامات کا اعلان کیا ہے لیکن یہ کافی نہیںہونگے ۔ وقفہ وقفہ سے مختصر مدتی اثرات کے اقدامات سے معیشت میںاستحکام پیدا ہونے کی امید فضول ہے ۔ اس کیلئے جامع پروگرامس اور اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ ملک کے ماہرین معاشیات نے بھی معاشی نظام میں وقت کے مطابق اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا تھا ۔ حکومت کے دعووں کے برخلاف صورتحال کا حقیقی اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کو اب خود اپنے اخراجات کی تکمیل کیلئے ریزرو بینک آف انڈیا سے مدد لینی پڑی ہے ۔ ریزرو بینک نے حکومت کو 1.76 لاکھ کروڑ روپئے کی رقمی مدد فراہم کی ہے ۔ یہ مختلف اشکال میں ہے ۔ اس سے حکومت اپنے اخراجات کی تکمیل کریگی اور دیگر امور کی تکمیل کی جائے گی ۔ حکومت کیلئے ریزرو بینک سے مدد ایسے وقت میں حاصل ہوئی ہے جبکہ ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ملک کی معاشی ترقی گذشتہ پانچ سال میں سب سے کم ہوگئی ہے اور اس کے اثرات سماج پر مرتب ہونے لگے ہیں۔حکومت کی جو حالت ہوگئی ہے اس کا پتہ چلانے کیلئے ریزرو بینک سے مدد کا حصول کافی ہے ۔ سابق گورنر ریزرو بینک رگھو رام راجن نے بھی چند دن قبل معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ ملک میں اصلاحات کے دوسرے دور کی ضرورت ہے ۔ جو اصلاحات نافذ کی گئی تھیں ان کو تقریبا تین دہوں کا عرصہ گذر چکا ہے اور بدلتے وقت کے تقاضوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کیلئے نئی اصلاحات لائی جانی چاہئے لیکن ایسا لگتا ہے کہحکومت اس جانب توجہ دینے کو تیار نہیں ہے یا پھر وہ ماہرین معاشیات کی رائے کو بھی کوئی اہمیت نہیںدیتی اور وہ اپنے ہی منصوبوں اور پروگراموں پر عمل آوری کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی ہے ۔ حکومت کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جزوقتی یا مختصر مدتی اثرات والے اقدامات سے معیشت کو مستحکم بنانے میں کامیابی نہیںمل سکتی ۔ کچھ وقت کیلئے حالانکہ صورتحال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے لیکن اس کے دو ر رس اثرات نہیں ہوسکتے اور اگر کچھ ہوں بھی تو وہ منفی ہی ہونگے کیونکہ حکومت معاشی سست روی کی اصل وجوہات کی جڑ تک پہونچنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ وہ حالات کے مطابق وقتی اثر والے اقدامات پر تکیہ کر رہی ہے ۔ حکومت کو اپنے خول سے باہر نکلتے ہوئے ماہرین معاشیات کی رائے طلب کرنی چاہئے ۔ ان کے مشوروں کو قبول کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن کے نتیجہ میں حکومت بکھرتے ہوئے شعبوں میں نئی جان ڈال سکے اور ملک کے عوام کو حقیقی معنوںمیں راحت فراہم کی جاسکے ۔