زنجیانگ میں ایغور مسلمانوں پر چین کا ظلم

   

مایاوانگ
چین اگرچہ دنیا کو یہ قائل کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ اس کے صوبہ ژنجیانگ میں ایغور مسلم باشندوں کو ظلم و جبر کا نشانہ نہیں بنایا جارہا ہے اس کے باوجود عالمی برادری اچھی طرح جانتی ہے کہ ایغور باشندوں کی پریشانیوں و مشکلات اور انہیں ستائے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ 26 اگست کو چینی صدر ژی جن پنگ نے صوبہ ژنجیانگ کا دورہ کیا اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ مسلم اکثریتی ایغور علاقہ میں سماجی ذمہ داری کا غیر معمولی احساس پایا جاتا ہے اور یہ صوبہ اتحاد، یکجہتی اور ترقی و خوشحالی کی جانب راوں دواں ہے۔ ایک خوبصورت ژنجیانگ کی تصویر جس کے بارے میں چینی صدر نے بات کی اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے حقوق انسانی سے متعلق دفتر کے بیان کے بالکل برعکس ہے۔ OHCHR نے گزشتہ سال جو رپورٹ جاری کی تھی اس میں بتایا تھا کہ سال 2017 سے چینی حکومت نے لاکھوں ایغور باشندوں اور دیگر ترک نسل لوگوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور جرائم کا ارتکاب کیا جس سے صوبہ ژنجیانگ کے ایغور باشندوں میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ حکومت چین اور اس کی ایجنسیاں مراکز اصلاحات (حراستی مراکز) کے نام پر ان کے انسانی حقوق کو بری طرح پامال کررہی ہیں اور یہ کام بہت ہی منظم انداز میں کیا جارہا ہے۔ چینی حکومت ایغور مسلمانوں کے خلاف ایسے اقدامات کررہی ہے جو عالمی جرائم کی فہرست میں آتے ہیں اور خاص طور پر اس کے جرائم انسانیت کے خلاف جرائم کی تعریف میں آتے ہیں جہاں تک چینی حکام کا سوال ہے ان لوگو ں نے ہمیشہ یہی کہا ہیکہ اس علاقہ میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اور وہ اس بات پر اب بھی مصر ہے حالانکہ چینی حکومت ژنجیانگ میں اپنی گرفت مضبوط رکھنے اور کنٹرول برقرار رکھنے کی خاطر سخت سے سخت ترین اقدامات کئے ہیں جس میں ایغور مسلم باشندوں کو مختلف سزائیں دینا بھی شامل ہے اور اس نے علاقہ ژنجیانگ میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خلاف اسٹرائک ہارڈ نامی مہم چلائی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس مہم کے ذریعہ چینی حکومت نے من مانی انداز میں اندازً ایک ملین (دس لاکھ) ایغور، قازق اور دوسروں کو سیاسی تعلیم نو یا اصلاحی مراکز کے نام پر حراست میں لے لیا جنہیں حراستی مراکز اور قید خانہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ہیومن رائٹ واچ کو انٹرویو دیتے ہوئے شہریوں نے بتایا کہ پولیس ناموں پر مشتمل فہرست لے کر گھروں پر پہنچ جاتی ہے۔ ایغور اور ترکی النسل لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کردیتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ان ایغور باشندوں کی گرفتاریاں سڑکوں، بازاروں اور عام مقامات سے بھی عمل میں آتی ہیں۔ چینی پولیس کی ظلم و زیادتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ راتوں میں بھی دھاوے کئے جاتے ہیں اور ایسے بھی بے شمار واقعات پیش آچکے ہیں جن میں ایغور باشندوں کو لاپتہ کردیا جاتا ہے اور جن لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ان پر غیر قانونی سرگرمیاں انجام دینے کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں اور پھر ان الزامات کے تحت انہیں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس جنہیں غیر قانونی سرگرمیاں قرار دیتی ہے وہ کیا ہے؟ مثال کے طور پر اگر کوئی ایغور باشندہ اپنے پڑوسی کے انتقال پر اس کی نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کرتا ہے یا پھر اپنے موبائل میں ایسا اپلیکشن رکھتا ہے جو حکومت کو پسند نہیں تب ایغور مسلم باشندوںکو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ ژنجیانگ کے بعض علاقوں میں ایسے واقعات بھی پیش آچکے ہیں جن میں ترکی النسل خاندانوں کو گرفتار کرلیا گیا یا غائب کردیا گیا یا ان خاندانوں کا شیرازہ بکھیر دیا گیا۔ مثال کے طور پر خاندان کے بالغ مرد و خواتین کو گرفتار کرکے بچوں کو حکومت کی جانب سے چلائے جانے والے یتیم خانوں میں رکھا جاتا ہے جس کا مقصد یتیم خانوںمیں رکھ کر ان بچوں کے ذہنوں سے ان کے مذہبی و ثقافتی تشخص کو مٹا دینا ہوتا ہے۔ دوسری طرف مراکز حراست میں ان ایغور مردو خواتین پر ناقابل تصور ظلم کرنے ان کی عصمت ریزی کرنے اور حراست میں ہی انہیں قتل کئے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ ظلم و جبر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جن لوگوں کو گرفتار نہیں کیا جاتا ان کے پاسپورٹس ضبط کرلئے جاتے ہیں۔ عام مقامات پر ہائی ٹیک نگرانی سسٹمس نصب کئے جاتے ہیں اور عوام کو تھکا دینے والی بے مقصد سیاسی مہم میں حصہ لینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ غرض من مانی کرتے ہوئے ایغور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے خود اس طرح کے دل دہلا دینے والے واقعات کی تصدیق کی ہے اور اس عالمی ادارہ نے ایغوروں کے ساتھ بیجنگ کے ہولناک رویہ و سلوک پر ساری توجہ مرکوز کررکھی ہے (لیکن ٹھوس اقدامات کرنے سے قاصر ہے) اگرچہ عالمی سطح پر مختلف حکومتوں نے چین کے ظالمانہ رویہ پر تشویش ظاہر کی اس کے باوجود ژنجیانگ میں کچھ نہیں بدلا۔ آزاد صحافیوں نے جنہیں کسی نہ کسی طرح ژنجیانگ میں داخل ہونے کا موقع ملا وہاں یہ پایا کہ سیاسی اصلاحات سے متعلق مراکز میں سے کچھ ہند کردیئے گئے ہیں لیکن کتنے بند کئے گئے ہیں اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔ 2022 کے وسط تک ہیومن رائٹس واچ نے اندازہ لگایا تھا کہ حراست مراکز بند کئے جانے کی اطلاعات کے باوجود تقریباً 5 لاکھ ایغور اور ترکی النسل مسلمان جیلوں میں بند ہیں اور جیلوں سے ان کی اجتماعی رہائی کے کوئی اشارے نہیں ملے۔ یہاں ایک اور تشویش کی بات ہے وہ یہ کہ جو ایغور باشندے بیرونی ملکوں میں ہیں وہ ژنجیانگ میں اپنے خاندانوں سے ربط پیدا کرنے میں ہنوز ناکام ہیں، انہیں ان کی خیر خیریت اور اتہ پتہ بھی نہیں معلوم ہے۔ ایک ایغور باشندہ نے حال ہی میں مجھے بتایا کہ اس وقت ژنجیانگ میں حالات نارمل ہوں گے جب وہ اپنے خاندان سے دوبارہ بات کرے گا تب ہی وہ کہہ سکتا ہے کہ حالات ٹھیک نہیں۔