ساوتھ کوریا نے ماہرین کی بات سنی

,

   

ساوتھ کوریا‘ مذکورہ امریکہ او ربرطانیہ نے ایک ہی وقت میں جنوری20‘جنورتی21اور جنوری 31بالترتیب اپنے پاس سی او وی ائی ڈی کے پہلے معاملے کی جانکاری دی۔

کس طرح چیزیں وہاں سے نکلیں‘ بدقسمتی سے امریکہ اور یوکے کے لئے حالات بے قابو ہوگئے
آج کی تاریخ میں ساوتھ کرویادن میں ایک سو سے کم نئے معاملات درج کررہا ہے‘ مذکورہ یوکے 400معاملات فی یوم اور امریکہ یومیہ اساس پر 30,000معاملات کی جانکاری دی رہا ہے۔

مگر وہیں ساوتھ کوریا میں نمبرات میں کمی آرہی ہے‘ وہیں امریکہ اور یوکے میں ان معاملات میں بڑی حد تک اضافہ ہورہا ہے (ایک ہفتہ قبل 20,000کے قریب نئے معاملات‘ایک ہفتہ قبل ایک دن یہ معاملات 80000سے بھی تجاوز کرگئے تھے)۔

ہم نہیں جانتے کہ امریکہ میں یہ بڑھتی ہوئی تعداد میں کوئی رکاوٹ ائی ہے یا نہیں ہے یا پھر یہ اعداد وشمار ایک روز میں تیز ہزار نئے معاملات بلا مبالغہ ہیں۔

اس میں تمام کامیابی کی بڑی کہانی ساوتھ کوریا کی ہے اور ہ جانتے ہیں انہوں نے یہ کیسے کیا۔

وہ جانچ ہے۔ چینی حکام نے 31ڈسمبر2019کے روز ڈبلیوایچ او کوجانکاری دی ہے کہ انہوں نے ایک نامعلوم نمونیاکی شناخت کی ہے اور 10جنوری کے روزبڑی تیزی کے ساتھ پروفیسر یونگ زین زہانگ برائے فوڈان یونیورسٹی شانگھائی نے وائرس کی آر این اے تسلسل شائع کیا۔

آر این اے تسلسل جس کی بنیاد پر تشخیصی جانچ کی جاتی ہے۔ کوگان بائیو ٹیک برائے سیول نے 4فبروری کے روز نہ صرف اس کو فروغ دیا بلکہ کورین سنٹرس برائے قابو امراض اور احتیاط(کے سی ڈی سی) کو منظوری دی۔

اور 10فبروری تک 2776لوگوں کی تلاش او رجانچ کی جانکاری دی تھی۔ اس وقت ساوتھ کوریامیں محض27معاملات تھے۔

اور ایک اور متاثرکن اقدام میں مذکورہ ساوتھ کوریائی انتظامیہ نے نہ صرف ایک ہر کی جانچ کی بلکہ اس سے زیادہ انہیں جن کی جانچ کی گئی ہے تنہائی میں رکھنا شروع کردیا اور ان سے تعلقات رکھنے والوں کی نگرانی شرو ع کردی گئی تھی۔

ابتدائی طور پر انتظامیہ نے ان لوگوں کی تعداد کو اکٹھا کرلیا جنھیں جانچ کی ضرورت ہے مگر ساوتھ کرویا عہدیداروں نے ان تمام رابطے کی بھی جانچ کرلی جو اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

انتظامیہ نے مفت جانچ کے مرکز قائم کردئے جو کسی کے لئے بھی میک ڈونالڈ اور اسٹار بکس کے طرز پر دستیاب تھے۔ جنھیں جانچ میں مثبت پایاگیا انہیں تنہائی میں رکھا‘ جس کے نتیجے میں عالمی وباء کا اثر قابو میں رکھا وہ بھی ملک کو بند کئے بغیر یہ کام انجام دیاگیا۔

تاہم امریکہ اوردیگر ممالک میں جانچ کے کٹس کی کمی کے سبب لوگوں کی شناخت اور ائسولیشن ممنوع ہے‘ جس کی وجہہ سے ساری آبادی اور ساری معیشت کو اس کے بجائے بند کردینا پڑا ہے۔

اس کے مقابلہ ساوتھ کوریاکو اس کی حکومت کے جزوی ردعمل اور اس کی بائیو ٹیک انڈسڈری کے ردعمل کے بچالیا ہے۔

ایک کے بعد دیگر کمپنیوں کو 12فبروری اور 27فبروری کو منظوری مل گئی تھی۔ اب تک امریکہ اور اس کے دیگر ساتھی تیار نہیں ہیں۔

مثال کے طور پر امریکی صدر بارک اوباما نے نے سکیورٹی کونسل میں بالخصوصی سی او وی ائی ڈی 19جیسے عالمی وباء سے مقابلے کے لئے ایک عالمی صحت سکیورٹی کے لئے ڈائرکٹوریٹ اور بائیو ڈیفنس کا قیام عمل میں لایاتھا۔

مگر دوسال بعد نئے ٹرمپ انتظامیہ نے اس کو بندکرکے ایک نیا ڈائرکٹوریٹ قائم کردیا۔ٹرمپ کی دلچسپی کی کمی کا تقابل ساوتھ کرویا صدر مون جائے ان سے کیاگیاتو اس سے ضرور ایک اشارہ ملے گا۔