سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں

   

ہندوستان … غربت اور فرقہ پرستی سے آزادی باقی
راجستھان … پائلٹ کے پلین کی سیف لینڈنگ

رشیدالدین
ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوئے 74 برس مکمل ہوگئے۔ سماج کے ہر طبقہ اور ہر گوشہ نے سیاسی اور مذہبی وابستگی سے بالاتر ہوکر آزادی کے لئے قربانیاں دیں۔ مجاہدین آزادی نے ایک ایسے ہندوستان کا خواب دیکھا تھا جو محض آزاد ہی نہیں بلکہ خوشحال اور ترقی یافتہ ہو۔ خوشحالی اور ترقی صرف کسی ایک مذہب کے ماننے والوں تک سمٹ کر نہ رہ جائے بلکہ آزادی کے ثمرات ہر ہندوستانی تک پہنچیں۔ ملک کی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی آئندہ سال منائی جائے گی لیکن 7 دہے گزرنے کے باوجود آج تک بھی ہندوستانی عوام غربت ، بیروزگاری ، بیماری ، تعصب، نفرت ، ذات پات اور فرقہ پرستی سے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ جب تک ان سے نجات نہیں ملے گی ، اس وقت تک حقیقی معنوں میں آزادی کا تصور پورا نہیں ہوگا۔ 1857 سے انگریزوں کی غلامی سے آزادی کی لڑائی باقاعدہ شروع ہوئی اور تقریباً 100 سال بعد ہندوستان میں آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ ملک کو غربت ، بیروزگاری ، بیماری اور دوسری برائیوں سے نجات کیلئے کیا مزید 100 سال درکار ہوں گے ؟ 15 اگست 1947 ء کو عوام انگریزوں کی غلامی سے جسمانی طور پر آزاد ہوگئے لیکن مٹھی بھر تعصب اور فرقہ پرست طاقتوں نے عوام کو ذہنی طورپر غلام بنادیا۔ ملک کو خوشحال بنانے اور یکساں مساوات اور انصاف کے بجائے انگریزوں کے ’’پھوٹ ڈالو حکومت کرو‘‘ کے فارمولہ کو اپناتے ہوئے سماج میں نفرت کا زہر گھول کر ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ۔ آزادی کے بعد متواتر حکومتوں نے غربت ، بیروزگاری اور بیماری جیسے بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کی لیکن متوازی طور پر سرگرم نفرت کی طاقتوں نے سماج کو مذہب ، علاقہ ، زبان اور رنگ و نسل کے نام پر بانٹتے ہوئے ملک و قوم کے ساتھ بد خدمتی کی ہے۔ سادہ لوح حکمرانوں کو اندازہ نہیں تھا کہ نفرت کی سیاست ملک کیلئے ناسور بن جائے گی۔ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں آر ایس ایس اور دیگر تنظیموں کے ذریعہ اپنے خفیہ ایجنڈوں کا پرچار جاری رکھا ۔ اکثریتی طبقہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ملک پر صرف ان کا حق ہے جبکہ باقی کرایہ دار کی طرح ہے۔ نفرت کے سوداگروں نے ترقی اور خوشحالی کے ایجنڈہ کو کمزور کردیا۔ عوام اور حکومتوں کو متنازعہ امور میں الجھاکر اپنا ووٹ بنک مضبوط کیا جاتا رہا ۔ آخرکار 2014 ء میں بی جے پی کو واضح اکثریت کے ساتھ اقتدار حاصل ہوگیا جو گزشتہ 70 برسوں سے سنگھ پریوار کا خواب تھا ۔

نریندر مودی کی قیادت نے بی جے پی کو اقتدار کیا ملا سنگھ پریوار نے ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی مساعی شروع کردی۔ مودی نے اقتدار کے لئے عوام کو خوشحالی اور ترقی کا خواب دکھایا۔ کروڑہا افراد کو روزگار، کالے دھن کی ملک واپسی کے ذریعہ ہر ایک شہری کے کھاتے میں 15 لاکھ روپئے ۔ اور بھی طرح طرح کے سبز باغ دکھائے گئے لیکن درپردہ ہندوتوا ایجنڈہ نافذ کیا جاتا رہا۔ ہر سال یوم آزادی کے موقع پر نریندر مودی قوم کو ہتھیلی میں جنت دکھاتے رہے۔ گزشتہ 6 برسوں میں دستور ، قانون ، عدلیہ ، مقننہ حثیٰ کہ جمہوریت کے پانچویں ستون صحافت کو بھی یرغمال بنالیا۔ دستوری و قانونی اداروں اور جمہوریت کو مودی حکومت کے چنگل سے آزاد کرانے کیلئے ایک نئی جدوجہد آزادی کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی بی جے پی کو جشن آزادی منانے کا اخلاقی حق اس لئے بھی حاصل نہیں ہوتا کیونکہ ان کے نظریہ سازوں نے جدوجہد آزادی میں انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ گزشتہ 6 برسوں میں دستور ، قانون ، جمہوریت اور سیکولرازم کی دھجیاں اڑائی گئیں۔

ہندوتوا ایجنڈہ کے عین مطابق عدالتوں سے فیصلے حاصل کئے گئے ۔ پارلیمنٹ میں اکثریت کا فائدہ اٹھاکر مسلمانوں اور شریعت کے خلاف قانون سازی کی گئی۔ رام مندر کی تعمیر، طلاق ثلاثہ ، کشمیر سے 370 کی برخواستگی جیسے تین اہم ایجنڈہ امور کی تکمیل کرلی گئی ۔ مسلمانوں کی شہریت مشکوک کرتے ہوئے دوسرے درجہ کا شہری بنانے کے لئے این آر سی اور این پی آر کا شوشہ چھوڑا گیا۔ شہریت قانون کی منظوری کے ذریعہ پڑوسی مسلم ممالک کے ہندوؤں کو شہریت دی جائے گی جبکہ مسلمان اس حق سے محروم رہیں گے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ تو برقرار رہا لیکن مسلمانوں اور شریعت پر وار کئے گئے ۔ یکساں سیول کوڈ اور دستور میں ترمیم کے ذریعہ ہندو راشٹر کا اعلان باقی رہ گیا ہے ۔ یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے خطاب نریندر مودی کی مجبوری ہے۔ اگر ان کا بس چلے تو وہ قومی پرچم لہرانے کا مقام تبدیل کردیں۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرپائیں گے۔ مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں سے لاکھ نفرت کرلیں لیکن یوم آزادی کے موقع پر پرچم کشائی کیلئے مسلمانوں کی نشانی پر آنا ہی ہوگا۔ مسلمانوں کی حب الوطنی کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر قومی پرچم کو مسلمان اپنے سر پر سجاکر اس کی عظمت اور وقار میں اضافہ کرتے ہیں۔ مغل حکمرانوں سے نفرت لیکن ان کی یادگاروں کے علاوہ قومی پرچم لہرانے کا کوئی اور موزوں مقام نہیں ہیں۔ جدوجہد آزادی سے سنگھ پریوار کی عدم دلچسپی کا مظاہرہ ایودھیا میں رام مندر کی بھومی پوجن کے وقت دیکھنے کو ملا، جب نریندر مودی نے جدوجہد آزادی اور رام مندر تحریک دونوں کو مساوی قرار دینے کی کوشش کی ۔ وزیراعظم کے اس تقابل کے بعد عوام کے دلوں میں سوال اٹھنے لگے ہیں کہ یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کے بجائے کہیں ایودھیا سے پرچم کشائی انجام دینے مودی پہنچ نہ جائیں۔ رام مندر کی تحریک خالص نفرت پر مبنی تھی۔ ایل کے اڈوانی کی رتھ یاترا کے دوران فسادات میں تقریباً 3,000 افراد کی جانیں ضائع ہوئیں۔ جنگ آزادی میں تمام مذاہب کے ماننے والوں نے حصہ لیا تھا جبکہ رام مندر کی تحریک خالص ہندوتوا طاقتوں کا ایجنڈہ رہا۔ مودی نے اپنے تقابل کے ذریعہ مجاہدین آزادی اور ان کی قربانیوں کی توہین کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس کے پاس مجاہدین آزادی نہ ہوں اور جن کا تحریک آزادی سے کوئی تعلق نہ ہوں ، ان کے نزدیک اس کی اہمیت نہیں ہوگی۔

بابری مسجد کے مقام پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کی آڑ میں رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ کرلیا گیا لیکن بھومی پوجا کے اعلان کے ساتھ ہی کورونا وائرس ان افراد کا تعاقب کرنے لگا ہے جو تعمیری سرگرمیوں میں پیش پیش ہیں۔ بھومی پوجا سے قبل عارضی مندر کے بعض پجاری کورونا کا شکار ہوئے تھے جس کے بعد احتیاطی تدابیر کے ساتھ بھومی پوجن منعقد کیا گیا جس میں وزیراعظم ، گورنر اترپردیش ، چیف منسٹر اترپردیش اور آر ایس ایس سربراہ نے شرکت کی۔ پوجا کے بعد رام مندر ٹرسٹ کے مہنت کورونا وائرس کا شکار ہوگئے۔ مودی ، یوگی اور موہن بھاگوت نے مہنت کے ساتھ مندر کی تعمیر کے لئے پوجا کی تھی ، دراصل یہ وائرس کی شکل میں قہر خداوندی ہے۔ مسلمان بھلے ہی اپنی مجبوری کے سبب تعمیری کام روکنے سے قاصر رہیں لیکن قدرت اپنے قہر کا اظہار کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے والے اس کی سزاؤں کو پہچان سکتے ہیں۔ ظاہر ہے مہنت کے متاثر ہونے کے بعد مودی ، یوگی اور موہن بھاگوت کو ہوم کورنٹائن ہونا پڑے گا۔ مودی نے یوم آزادی تقریب میں حصہ لیتے ہوئے دوسروں کی جان جوکھم میں ڈال دی ہے۔ سماجی فاصلہ کی برقراری کا دوسروں کو درس دینے والے مودی نے گائیڈلائنس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہوم کورنٹائن ہونے کے بجائے یوم آزادی تقریب میں حصہ لیا۔ دوسری طرف راجستھان میں اشوک گہلوٹ حکومت بی جے پی کی سازش سے بچنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ مدھیہ پردیش کی طرح راجستھان میں باغی ارکان اسمبلی کی مدد سے کانگریس حکومت کو زوال سے دوچار کرنے کی کوشش کی گئی۔ مدھیہ پردیش میں جونیئر سندھیا بی جے پی کے جال میں پھنس گئے جبکہ راجستھان میں راجیش پائلٹ پر بی جے پی کا جادو نہیں چل سکا۔ اشوک گہلوٹ نے اپنے تجربہ کا فن دکھاتے ہوئے وفادار ارکان کو کچھ اس طرح متحد رکھا کہ بی جے پی کو ہتھیار ڈالنا پڑا۔ اشوک گہلوٹ سے اختلافات کے سبب سچن پائلٹ نے بغاوت تو کی لیکن انہوں نے جونیئر سندھیا کا حشر دیکھ کر خود کو بی جے پی سے دور رکھا۔ کچھ دن تک ناراضگی کا اظہار کرنے کے بعد آخرکار سچن پائلٹ کی گھر واپسی ہوگئی۔ جس طرح موسمی خرابی کے سبب پلین فضاء میں راستہ بھٹک جاتے ہیں ، اسی طرح سیاسی خراب موسم کے باعث سچن کا پلین بھی بھٹک گیا تھا لیکن آخرکار انہوں نے پلین کی سیف لینڈنگ کرلی اور ساتھی مسافرین کو بچالیا۔ یوم آزادی کے موقع پر ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم کا یہ شعر ان کیلئے صحیح خراج ثابت ہوگا ؎

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے