سروے مشنری سرگرم

   

ہم مسافر ہیں ہمارا نام کیا، منزل ہے کیا
چلتے چلتے رک گئے، بستی جہاں اچھی لگی
ملک میں جیسے جیسے آئندہ پارلیمانی انتخابات کا وقت قریب آتا جارہا ہے ۔ مختلف گوشوں کی جانب سے سرگرمیوں کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ ہر گوشہ اپنے اپنے طور پر حکمت عملی کی تیاری میں مصروف ہے ۔ اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق ماحول کو سازگار بنایا جارہا ہے ۔ وقت سے پہلے سرگرمی کا آغاز دراصل حالات کو اپنے طور پر ڈھالنے کی ایک کوشش ہی ہے تاکہ عین وقت پر نتائج حسب توقع حاصل کئے جاسکیں ۔ سیاسی جماعتیں اپنے طور پر حکمت عملی بنا رہی ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے طور پر حلیف بنانے کی درپردہ سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں ۔ جہاں کچھ جماعتیں سابقہ اتحاد کو خیر باد کہنا چاہتی ہیں اور نئے اتحاد بنانے کی حکمت عملی بنا رہی ہیں وہیں کچھ جماعتیں اپنے قدیم اتحاد کو برقرار رکھنے کی جدوجہد بھی کرتی نظر آرہی ہیں ۔ انتخابی تیاریوں کے ماحول میں بی جے پی سب سے آگے دکھائی دیتی ہے ۔ اس کی تیاریاں دوسروں سے کافی آگے دکھائی دیتی ہیں ۔ یہ تیاریاں صرف سیاسی حکمت عملی تک محدود نہیں ہیں ۔ بی جے پی انتخابات کے لیے ہمیشہ ہی ہمہ جہتی تیاریاں کرتی ہے ۔ یہ تیاریاں جہاں عوام پر اثر انداز ہونے کے لیے ہوتی ہیں وہیں میڈیا کو بھی اپنا ہمنوا بنانے کے لیے باضابطہ منصوبے بنائے جاتے ہیں ۔ اس سال بھی بی جے پی نے میڈیا کو ہمنوا بنانے کا عمل شروع ہوچکا ہے اور میڈیا کے بعض گوشے اپنے تفویض منصوبوں پر عمل بھی شروع کرچکے ہیں ۔ ابھی جب کہ انتخابات کے لیے ایک سال سے زائد کا وقت رہ گیا ہے سروے مشنری سرگرم ہوچکی ہے ۔ انڈیا ٹو ڈے ، سی ووٹر نے ایک سروے کر کے بی جے پی کے لیے سبقت دکھانا شروع کردیا ہے ۔ ان اداروں نے جو سروے کیا ہے اس میں بی جے پی کی کامیابی کی پیش قیاسی کی گئی ہے ۔ سروے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر فی الحال انتخابات منعقد ہوتے ہیں تو بی جے پی 284 نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکتی ہے ۔ اس طرح سروے میں بی جے پی کے اقتدار کی پیش قیاسی کی گئی ہے ۔ یہ دراصل ایک پروپگنڈہ مہم ہے جو ووٹرس پر اثر انداز ہونے کے لیے ہمیشہ چلائی جاتی ہے ۔ اس کا حقیقت سے زیادہ قریبی تعلق نہیں ہوتا لیکن اس کے ذریعہ خاموش ووٹرس کی تائید حاصل کرنے اور ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس مہم کے کبھی حسب توقع نتائج برآمد ہوتے ہیں اور کبھی نتائج اس کے بالکل برعکس برآمد ہوتے ہیں ۔ تاہم پروپگنڈہ مہم مسلسل سرگرم رہتی ہے ۔
اس مرتبہ جو سروے کیا گیا ہے اس کے مطابق ملک کے 67 فیصد عوام مودی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں ۔ یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ حکومت کی کارکردگی سے ناراض ہونے والے عوام کی تعداد میں کمی آئی ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ کارکردگی سے مطمئن ہورہے ہیں ۔ یہی وہ پہلو ہے جو عوام کے ذہنوں میں ڈھالنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ عوام کا ایک بڑا طبقہ ہوتا ہے جو لمحہ آخر تک اپنے ووٹ کے تعلق سے فیصلہ نہیں کرتا اور لمحہ آخر میں وہ اپنا ذہن بناتا ہے ۔ اسی طبقہ پر اثر انداز ہونے کے لیے پروپگنڈہ مہم چلائی جاتی ہے اور یہ مہم شروع ہوچکی ہے ۔ اپنے سروے میں سچائی کا عنصر دکھانے کے لیے یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ کانگریس کو اس بار 191 لوک سبھا حلقوں سے کامیابی مل سکتی ہے ۔ نتائج کے تعلق سے ویسے تو ہمیشہ کئی قیاس آرائیاں ہوتی ہیں لیکن اس طرح کی قیاس آرائیوں کے جو مقاصد ہوتے ہیں ان کا جائزہ لینا بہت ضروری اور اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اس بار جو سروے سامنے آیا ہے یقینی طور پر اس کے بھی مقاصد اور عزائم ہوتے ہیں تاہم بین السطور میں جو مقاصد ہیں ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ جس وقت پر یہ سروے کیا گیا ہے اس کی اہمیت بھی ہے کیوں کہ ابھی سے عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہوا جارہا ہے ۔ سروے کی سچائی اور اس کے موثر ہونے کے تعلق سے دعویٰ ابھی نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کے پس پردہ سیاسی مقاصد اور محرکات ضرور ہیں ۔
سروے میں مختلف مسائل پر حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا دعویٰ کیا گیا ہے ۔ کورونا سے نمٹنے حکومت کی کارکردگی کو بھی عوام کی اکثریت کی جانب سے قبول کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے جب کہ کورونا کے دوران جو حالات تھے عوام آج بھی اس کو فراموش نہیں کرپائے ہیں ۔ بیروزگاری اور مہنگائی جیسے اہمیت کے حامل مسائل پر سروے میں زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ بیروزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل سے عوام کی اکثریت متاثر ہے ۔ اس پر عوام کے موقف کو سروے میں موثر ڈھنگ سے پیش نہیں کیا گیا ہے ۔ سروے کی حقیقت پر تو فی الحال کوئی دعویٰ نہیں کیا جاسکتا تاہم یہ ضروری ہے کہ بی جے پی کی پروپگنڈہ مشنری سرگرم ہوچکی ہے ۔
مسئلہ ججس کے تقرر کا
سپریم کورٹ کے ججس کے تقرر کا مسئلہ اختلاف رائے کا باعث بنتا جارہا ہے جہاں سپریم کورٹ کالجیم اپنے دیرینہ روایتی نظام کی برقراری کا حامی ہے وہیں حکومت اس پر مختلف رائے رکھتی ہے ۔ حکومت سپریم کورٹ کالجیم کے طریقہ کار میں بڑی حد تک تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے ۔ سپریم کورٹ ججس کے تقرر کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس مسئلہ پر نہ کبھی سیاست ہونی چاہئے اور نہ اختلاف رائے کو فروغ دیا جانا چاہئے ۔ سپریم کورٹ کالجیم اور حکومت کے مابین اس مسئلہ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی جدوجہد کی جانی چاہئے ۔ دونوں ہی فریقین کو واجبی موقف اختیار کرتے ہوئے ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ایک دوسرے کے موقف کا جائزہ لیا جائے۔ ان کی تجاویز پر ہمدردی سے اور واجبیت کے ساتھ غور کیا جائے ۔ حکومت اگر صرف اپنے موقف کو درست سمجھتے ہوئے اپنی رائے کو مسلط کرنا چاہے گی تو یہ نہ عدلیہ کے مفاد میں ہوگا اور نہ انصاف کے تقاضوں کی تکمیل ہوگی ۔یہ مسئلہ سارے ملک کے عوام کو انصاف رسانی سے مربوط ہے ، اس کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لیا جانا چاہئے ۔ اختلاف رائے کو دور کرنے کی کوششوں میں ایک دوسرے کے تعلق سے ایسے ریمارکس اور تبصرے نہیں کئے جانے چاہئیں جن کی بدولت اختلافات میں شدت پیدا ہوجائے یا دوریوں میں اضافہ ہوجائے ۔ دونوں ہی فریقین کی کوشش اختلاف رائے کو ختم کرنے پر مرکوز ہونی چاہئے اور کسی بھی حالت میں ایکد وسرے کے موقف کو کمزور کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اس مسئلہ پر اٹل موقف اختیار کرنے یا کسی بھی مسئلہ پر بضد رہنے کی بجائے نرم اور لچکدار موقف اختیار کرنا چاہئے ۔ حالیہ دنوں میں وزیرقانون کرن رجیجو کی جانب سے جو بیانات دیئے جارہے ہیں وہ قدرے نامناسب ہی کہے جاسکتے ہیں اور اس سے اختلاف رائے کم ہونے کی بجائے ان میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ ججس کی جانب سے بھی ان بیانات پر شدید ردعمل ظاہر کیا جارہاہے ۔ حکومت کو اس کا نوٹ لینے اور ان شکایات کا ازالہ کرنے پر غور کرنا چاہئے ۔ اس بات کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہر دو فریق کی اس معاملہ میں اپنی اپنی اہمیت ہے اور اس اہمیت پر کسی طرح کا سمجھوتہ کئے بغیر اس انتہائی اہمیت کے حامل مسئلہ کی یکسوئی کی جانی چاہئے ۔ کسی فریق میں یہ احساس پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ دوسرے فریق کو اس مسئلہ میں برتری یا سبقت مل گئی ہے ۔ اہمیت اور حساسیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسئلہ کا خوشگوار حل دریافت ہونا چاہئے ۔