سرینگر میں تحدیدات کی کمی کے باوجود سڑکیں سنسان

,

   

سکیورٹی گاڑیاں خاردھار تاریں کچھ سو میٹر کے بعد صاف دیکھائی د رہی ہے‘ مگر پہلی مرتبہ جب سے 5اگست کی ابتدائی ساعتوں سے تحدیدات عائد کئے گئے تھے جزوی طور پر لوگو ں کو حمل ونقل کی اجاز ت دی گئی تھی۔

سری نگر۔ تین ہفتوں کے بعد پہلی مرتبہ پیر کے روز لوگوں کی حمل ونقل اور ایک سے زائد لوگوں کے اکٹھا ہونے پر عائد پابندی کو سری نگر کے قدیم شہر سے برخواست کیاگیا

مگر زیادہ تر دوکانیں او رسڑکیں سنسان ہی رہیں اور لوگوں نے کہاکہ وہ جموں او رکشمیر کے خصوصی موقف کو برخواست کے متعلق مرکزی حکومت کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔

سکیورٹی گاڑیاں خاردھار تاریں کچھ سو میٹر کے بعد صاف دیکھائی د رہی ہے‘ مگر پہلی مرتبہ جب سے 5اگست کی ابتدائی ساعتوں سے تحدیدات عائد کئے گئے تھے جزوی طور پر لوگو ں کو حمل ونقل کی اجاز ت دی گئی تھی۔

سکیورٹی دستے لوگوں کو بوہری کنڈال‘ راجوری کنڈال‘ خان یار‘ نواہاٹا‘ گوجوار‘ ہوال علاقے میں حمل ونقل کرنے سے نہیں روک رہے تھے

اور قدیم شہر کے مختلف علاقوں میں کم سے کم شہر کی تین تہائی آبادی1.2ملین مکین ہیں اور یہ احتجاج اور پتھر بازی کے مرکز سے بھی مشہور ہے۔

جامعہ مسجد کی گیٹ کے باہر بھاری تعداد میں پولیس تعینات ہے‘‘ تحدیدات کی وجہہ سے یہاں پر پچھلے تین ہفتوں سے جمعہ کی نماز ادا نہیں کی گئی ہے۔

بھوری کھنڈل میں ایک درمیانی عمر کے شخص نے کہاکہ ”انڈین یونیم میں بڑی خصوصیات کے ساتھ ہمیں لوٹا گیاہے۔

آب آبادیاتی تبدیلیاں بھی قریب ہیں۔ آ پ کیاسمجھتے ہیں ہمیں کیاکرنا چاہئے؟ہمیں نہیں جائیں گے اور اپنی دوکانیں نہیں کھولیں گے۔ ہم جو کرسکتے ہیں اس میں ہم جدوجہد کریں گے“۔

انہوں نے مقامی سطح پر ابھرتے ایک خوف کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ بیرونی لوگوں کی گھس پیٹ شروع ہوگی جس سے مسلم اکثریت والے علاقے کی سماجی مرکب کو متاثر ہ کیاجارہا ہے۔

ارٹیکل 370کی جموں اور کشمیر سے برخواستگی کے بعد سے مذکورہ انتظامیہ نے فون اور انٹرنٹ لائن بند کردئے تھے‘ او رریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں تشکیل دیدیا۔اس کے بعد سے وادی بھر میں بڑے پیمانے پر تحدیدات عائد کردئے گئے تھے۔