سمجھوتا ایکسپریس معاملہ۔ سیاسی موقع پرستی دہشت گردی پر جنگ میں شکست کی وجہہ

,

   

قانونی طور پر غیر قابل اطلاق چارج شیٹ کی وجہہ سے سمجھوتا ایکسپریس دھماکوں کے کیس میں ملزم کی مذکورہ برات انجام پائی ہے۔

وہ موقع جب عدالت نے سمجھوتا ایکسپریس واقعہ میں فیصلہ سنایا‘ تو اس کیس سے وابستہ ہر فریق اپنی مناسبت سے فیصلے کی تشریح شروع کردی۔

مذکورہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہ کہتے ہوئے کانگریس کو ہدف تنقید بنایا کہ اس نے ہندوؤں کو بدنام کرنے کے لئے یہ سازش کی تھی جس کا اب انکشاف ہوگیاہے۔

مذکورہ سمجھوتا ایکسپریس دھماکہ 18فبروری2007کو پیش آیا اور ہریانہ کی ریاستی حکومت نے اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم(ایس ائی ٹی) کے ذریعہ اس کی جانچ شروع کی اور اس نے 2011میں اس وقت تک معاملے کی جانچ کی جب ذاتی طور پر حکومت نے فیصلہ لیاکہ مختلف بم دھماکوں کے معاملے کی جانچ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این ائی اے) کرے گی۔

اس وقت تک ہریانہ کی ایس ائی ٹی نے ایک پاکستان شہری عثمان کا بیان قلمبند کیاتھا۔ اس کے بیان سے پاکستان کے دھماکے میں شامل ہونے کا شبہ پید ا ہوا تھا۔

فبروری2007سے فبروری 2011تک ایس ائی ٹی نے معاملے کی جانچ کی اورمعاملہ آگے نہیں بڑھا۔

این ائی نے محض چار ماہ میں اس پر عائد ذمہ داری کو پورا جوچار سال میں ایس ائی ٹی ہریانہ نے نہیں کیاتھا۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ این ائی اے نے مسلسل بین الاقوامی اداروں کو اس نظریہ کے ساتھ کہ سمجھوتا ایکسپریس دھماکوں میں عارف عثمانی کے رول کی تحقیقات کی جارہی ہے کہ کئی درخواست بھی روانہ کی تھیں۔

عثمانی پر پہلی درخواست این ائی اے نے 2011میں روانہ کی‘ اس کے بعد حسب ضرورت سنوائی زیر التوا ء ہونے کے دوران بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔اس طرح این ائی نے چارج شیٹ کی تیاری کی اور ساتھ میں پاکستانی زوایہ سے بھی معاملے کی جانچ کی۔

مذکورہ امریکہ نے عارف عثمانی کو بین الاقوامی دہشت گرد قراردیا۔پنجکولا کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کا مطالعہ کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ عدالت نے این ائی اے کی جانب سے پیش کردہ تمام ثبوتوں کو مسترد کردیاہے۔

تمام واقعہ ملزمین کے خلاف صرف ایک ملزم آسیما آنند کے اقبالیہ بنیاد پر مشتمل ہے جو کرائمنل طریقہ کار ایکٹ کے 164کے تحت لیاگیا تھا۔

سنوائی کرنے والی عدالت نے اعتراف جرم کے سارے عمل میں مختلف بے قاعدگیوں پر طویل تبادلہ خیال کیا۔

آسیما آنند نے 13جنوری2011کو عدالت میں یہ داخل کیاتھا کہ کسی اقبالیہ بیان دینے کی کوئی منشا نہیں ہے اور انہیں عدالتی تحویل میں جیل بھیج دیاگیا۔

یہاں پر تین تاریخ کافی اہمیت کی حامل ہیں کہ آسیما آنند نے 13جنوری2011کو عدالت میں یہ داخل کیاتھا کہ کسی اقبالیہ بیان دینے کی کوئی منشا نہیں ہے اور انہیں عدالتی تحویل میں جیل بھیج دیاگیا۔اور 15جنوری2011اس کو دوبارہ این ائی اے نے مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیاجہاں پر اس نے اپنے اقبالیہ بیان درج کرایا۔

جس عدالت نے ریمانڈ پر بھیجا تھا اس سے اجازت لئے بغیر یہ کام کیا اور این ائی اے کے قواعد کی خلاف ورزی کی۔

یہ سونچنے کی بات ہے کہ آسیما آنند نے کس طرح 48گھنٹوں کے اندر اپنے ذہن بدل لیا۔

آسیما آنند نے جب اپنا خود ساختہ اقبالیہ بیان 15جنوری2011کو درج کرالیااس کے بعد اسے دوبارہ پولیس تحویل میں روانہ کردیاگیا۔