سونیا گاندھی بردبار سیاست داں

   

وینکٹ پارسا
صدر کانگریس سونیا گاندھی نے 9 ڈسمبر 2021ء کو اپنی عمر کے 75 سال مکمل کرلئے۔ سونیا گاندھی کی پیدائش 9 ڈسمبر 1946ء کو ہوئی۔ جہاں تک سونیا گاندھی کا سوال ہے، انہوں نے ہمیشہ بردباری کا مظاہرہ کیا۔ خاص طور پر اپنے ناقدین اور مخالفین کے تعلق سے کوئی جارحانہ انداز اختیار نہیں کیا بلکہ انتہائی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناقدین اور مخالفین کو شرمسار کیا۔ 2004ء میں وہ بہ آسانی عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہوسکتی تھیں لیکن انہوں نے خود کو عہدہ وزارت عظمیٰ سے دور رکھا۔ سونیا گاندھی کے اس فیصلے نے خود ان کی پارٹی اور حزب اختلاف دونوں کو حیران کردیا۔ دراصل سونیا گاندھی نے ایک طرح سے بڑی قربانی دی اور اس کی زیادہ تشہیر بھی نہیں کی۔ دنیا میں اس طرح کا واقعہ کہیں بھی پیش نہیں آیا، کیونکہ اکثر یہی دیکھا گیا کہ سیاست داں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کیلئے بے چین رہتے ہیں لیکن سونیا گاندھی نے عہدۂ وزارت عظمی پر فائز نہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایک اچھی مثال قائم کی۔ انہوں نے خود کو ایک اور Marry Tudor بننے سے محفوظ رکھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ عہدۂ وزارت عظمیٰ پر اسی طرح ایک مختصر مدتی کیلئے فائز ہوں جس طرح برطانیہ کی شہزادی Marry Tudor فرانس کی مختصر سے عرصہ کیلئے ملکہ رہیں۔ Marry Tudor دراصل برطانیہ کے بادشاہ ہینری ہفتم ایلزبتھ آف یارک کی چھوٹی بیٹی اور فرانس کے بادشاہ لوئس XII کی تیسری بیوی تھی۔ لوئس، میری ٹیوڈر سے 30 سال بڑے تھے۔ بہرحال سونیا گاندھی اس واضح موقف کی حامل ہیں کہ وہ معاشرہ کو منقسم کرنے کا باعث نہیں بنیں گے بلکہ سماجی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کی علامت بنیں گی۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہوں نے اقتدار کیلئے فسادات برپا کئے ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کیا اور اس تباہی و بربادی سے لے کر ہجومی تشدد کا طریقہ بھی اختیار کیا۔ اس طرح وہ موت کے سوداگر بھی بنے ۔ ان کا مقصد صرف اور صرف اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنا تھا اور انہوں نے ایسا کیا بھی۔ ہمارے ہندوستان کی یہ روایت رہی ہے کہ بہو جہاں کہیں سے آئے ، اس کا احترام کیا جاتا ہے ، ایک مرتبہ ہندوستانی خاندان میں اس کی شادی ہوجائے تو وہ نہ صرف بہو بن جاتی ہے بلکہ اسے خاندان کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سونیا گاندھی کا بیرونی نژاد ہو نا کبھی بھی ان کیلئے مسئلہ نہیں بنا، لیکن بعض سیاست دانوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے اسے مسئلہ بنانے کی کوشش کی۔ سونیا گاندھی کی شادی سرزمین ہند پر ہوئی اور انہوں نے اپنا سہاگ بھی اسی سرزمین پر گنوایا اور ان کی ساس اندرا گاندھی نے بھی اپنی آخری سانس سونیا گاندھی کی گود ہی میں لی۔
ان کے ہندوستانی ہونے کو ہر کسی نے تسلیم کیا اور ملک کیلئے ان کی قربانیوں کی ہر کسی نے ستائش بھی کی۔ سونیا گاندھی نے تاریخ رقم کرتے ہوئے دنیا کو بتا دیا کہ اقتدار اور مقام و مرتبہ و عہدہ کا نام ہی سیاست نہیں ہے بلکہ سیاست کا مطلب عوام کی بہبود کیلئے کام کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ انہیں بہتر بنایا جائے اور عوام کیلئے بہتر سے بہتر اقدامات کے معاملے میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ سونیا گاندھی نے اس پر بہت کام کیا اور ان کے عوام سے بہبود سے متعلق کاموں کا کوئی بھی جائزہ لے سکتا ہے۔ میرے خیال میں اگر وہ سیاست میں نہیں ہوتیں تو پھر وہ ایک اور مدر ٹریسا بن جاتیں، کیونکہ ان میں سماجی خدمات جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ درحقیقت سونیا گاندھی نے 2004ء تا 2014ء کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے حکومت کے دوران تشکیل کردہ قومی مشاورتی کونسل کی قیادت کی اور اس دوران انہوں نے فرح نقوی، ارونا رائے اور ہرش مندر جیسے سماجی جہد کاروں کے ساتھ کام کیا۔ اقتدار کے معاملے میں انہوں نے جس طرح کا موقف اختیار کیا، وہ دراصل ہندوستان کی قومی ، تہذیبی و ثقافتی و تمدنی اخلاقیات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کم از کم حالیہ وقتوں میں سونیا گاندھی ایسی پہلی شخصیت ہوں گی جنہوں نے اپنی مرضی و منشاء کے تحت رضاکارانہ طور پر اقتدار کو ٹھکرادیا جبکہ ہمارے ملک میں ایسے بے شمار عناصر ہیں جن کے اذہان وقلوب میں اقتدار کا لالچ بھرا ہوا ہے اور اقتدار کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ موت کے سوداگر بھی بن سکتے ہیں۔ ہندوستان میں یہ امتیازی اور انفرادی خصوصیت پائی جاتی ہے کہ ان شخصیتوں کی یہاں پوجا ہوتی ہے جو صاحب اقتدار ہوں یا کسی اعلیٰ عہدہ پر فائز ہوں۔ اس معاملے میں رامائن میں راجہ دسرتھ کا جو ذکر کیا گیا ہے، انہوں نے سادھو وشوامترا کا خیرمقدم کیا اور بڑی عزت و احترام کا برتاؤ رہا۔ وشوامترا نے دنیاوی عیش و عشرت اور عہدوں کو خیرباد کہہ دیا تھا، سونیا گاندھی نے بھی اقتدار کو ٹھکراتے ہوئے خود کو ہندوستانی تہذیب و تمدن اور اخلاقیات کا نمونہ پیش کیا۔ اس سلسلے میں ہم رامائن کی مثال پیش کرسکتے ہیں جہاں رام چندر جی کو تاج پوشی کے دن ہی راجہ دسرتھ نے رانی کیکئی کی ایماء پر راج پاٹ چھوڑ کر بن باس کیلئے جانے کی ہدایت دی اور رام نے خوشی خوشی راجہ دسرتھ کا حکم بجا لایا۔ وہ تو رامائن تھی، لیکن سونیا گاندھی نے حقیقت میں اقتدار حاصل کرنے سے گریز کیا۔ انہوں نے اپنے اس اقدام کے ذریعہ لوگوں کو گاندھیائی طرز سیاست دکھائی۔ گاندھیائی طرز سیاست دراصل جمہوریت، سکیولرازم، سوشلزم کے نظریات پر جینا اور اسی پر مرنا ہے۔ ساتھ ہی تمام بالخصوص معاشرہ کے کمزور طبقات کیلئے سماجی انصاف کو یقینی بنانا ہے۔ دراصل سونیا گاندھی نے اپنا یہ ذہن بنالیا تھا کہ وزارت عظمی پر فائز ہونا ان کا مقصد نہیں ہے۔ انہوں نے اپنا موقف واضح کردیا تھا کہ رائے دہندوں نے اقتدار کیلئے کانگریس کو منتخب کیا تھا۔ اس ضمن میں مَیں آپ کو بتا دوں کہ 2004ء میں کانگریس نے سونیا گاندھی کی مدبرانہ قیادت میں کامیابی حاصل کی تھی۔ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 2004ء کے عام انتخابات میں کانگریس کی غیرمعمولی کامیابی کے بعد راشٹرپتی بھون نے تشکیل حکومت کیلئے سونیا گاندھی کے نام رسمی مکتوب بھی تیار کردیا تھا لیکن سونیا گاندھی نے جب اس وقت کے صدر اے پی جے عبدالکلام سے یہ بات کہی کہ وہ یہ عہدۂ قبول نہیں کریں گی اور عوام کی زبردست تائید حاصل کرنے کے باوجود ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ہندوستان کا وزیراعظم نامزد کررہی ہیں چنانچہ کہیں جاکر اس مکتوب کا مسودہ ازسرنو تیار کرنا پڑا۔ اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ سونیا گاندھی کو ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین مرتبہ اقتدار کے تاج کی پیشکش کی گئی لیکن تینوں مرتبہ انہوں نے عہدۂ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے سے انکار کردیا۔ پہلی مرتبہ 21 مئی 1991ء کو راجیو گاندھی کے بہیمانہ قتل کے بعد یہ پیشکش انہیں کی گئی تھیں۔ اس وقت کانگریس ورکنگ کمیٹی نے اپنے ہنگامی اجلاس میں سونیا گاندھی کو متفقہ طور پر صدر کانگریس منتخب کیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انتخابات کے بعد سونیا گاندھی خود بہ خود وزیراعظم بن جائیں گی، لیکن سونیا گاندھی نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ وہ چاہتی تھیں کہ پی وی نرسمہا راؤ کو صدر کانگریس اور پھر وزیراعظم بنایا جائے۔
عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کا دوسرا موقع اس وقت ملا جب ارجن سنگھ نے پی وی نرسمہا راؤ کے خلاف بغاوت کردی، وہ چاہتے تھے کہ نرسمہا راؤ کو عہدۂ وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا جائے۔ ارجن سنگھ نے دراصل سونیا گاندھی کیلئے میدان تیار کیا تھا لیکن سونیا گاندھی نے انکار کردیا۔ تیسرا موقع 2004ء میں آیا اس وقت دنیا کی کوئی بھی طاقت انہیں وزیراعظم بننے سے نہیں روک سکتی تھی لیکن انہوں نے خود رضاکارانہ طور پر وزیراعظم نہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اسی طرح سونیا گاندھی نے ہندوستان کے سیاست دانوں اور عوام کو گاندھیائی پیغام دیا۔ سونیا گاندھی کو اس بات کا اعزازا حاصل ہے کہ انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کی تاریخ میں طویل عرصہ تک پارٹی صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 6 مارچ 1998ء کو پہلی مرتبہ انہیں صدر کانگریس بنایا گیا جس پر وہ 2017ء تک برقرار رہیں۔ پھر دوبارہ 2019ء وہ پارٹی کی سربراہ بنیں اور آج تک اس پر فائز ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سونیا گاندھی کانگریس کی تیسری ایسی خاتون صدر ہے جو بیرونی نژاد ہے۔ پہلی مرتبہ اینی بیسنٹ کو صدر بنایا گیا تھا اور پھر نیلی سین گپتا صدر کانگریس بنیں۔ جبکہ کانگریس کے اب تک بنائے گئے خاتون صدور میں سونیا گاندھی کا پانچواں نمبر ہے۔ سروجنی نائیڈو اور اندرا گاندھی بھی کانگریس کی صدر بنائی گئی تھیں۔