سوڈان میں کیا ہورہا ہے

   

امجد خان
سوڈان پر کنٹرول کیلئے متحارب فوجی گروپوں میں لڑائی کا سلسلہ جاری ہے اور اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے ۔ عوام اس قدر پریشان ہیں کہ ملک کے خطرناک حالات و صورتحال سے بچنے کی خاطر وہ فرار اختیار کر کے مصر میں پناہ لے رہے ہیں حیرت اور تعجب کی بات یہ ہیکہ جو سوڈانی شہری اپنی جانیں بچانے مصر فرار ہونے کی کوشش کررہے ہیں انہیں مصر تک لے جانے کیلئے بس ڈرائیور چالیس ہزار ڈالرس کی کثیر رقم کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ موجودہ حالات میں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سوڈان میں سیول گورنمنٹ کا دور دور تک امکان نہیں ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ دو حریف جرنیلوں کی لڑائی میں عوام ناقابل تصور پریشانیوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں ۔ واضح رہے کہ ان جرنیلوں اور ان کے وفاداروں کے درمیان لڑائی کے نتیجہ میں اب تک 459 افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوچکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد 4 ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے ۔ جہاں تک دارالحکومت خرطوم کا سوال ہے اس بے چینی میں اس کے بے شمار حصے جنگی منطقوں میں تبدیل ہوچکے ہیں ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق زخمیوں اور مرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور آنے والے دنوں میں زخمیوں اور جان بحق ہونے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ کا امکان ہے ۔ آپ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سوڈان کی مسلح افواج (SAF)اور سوڈان کی ریاپڈ سپورٹ فورسس کے درمیان 72 گھنٹوں کی جنگ بندی کا بھی کچھ فائدہ نہیں ہوا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپریل کے وسط میں سوڈانی فوج اور پیراملٹری ریاپڈ سپورٹ فورس کے درمیان لڑائی کا آغاز ہوا جس میں تاحال ہزاروں اموات ہوئیں ہیںاور ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ۔ ملک میں پانی ، غذا ، ادویات اور فیول ( پٹرول ) کی شدید قلت پائی جاتی ہے سوڈانی عوام اپنی زندگیوں کو بچانے کی خاطر فرار اختیار کرنے پر مجبور ہیں ۔ جو مصر میں داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں جن کیلئے انہیں بس ڈرائیورس کو منہ مانگی رقم دینی پڑرہی ہے ۔
آپ کو بتادیں کہ یہ لڑائی دراصل دو جرنیلوں کے درمیان اقتدار کی لڑائی ہے ایک تو سوڈان کے فوجی حکمراں فوجی سربراہ عبدالفتح البرہان اور دوسرے جنرل محمد حمیدتی دغالو ہیں ۔ جنرل دغالو حمیدتی کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں ۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ حالیہ عرصہ تک دونوں اتحادی تھے اور حمیدتی نے متحدہ طور پر سوڈان صدر عمر البشیر کو 2019 میں اقتدار سے بیدخل کیا تھا اور 2021 کی فوجی بغاوت میں بھی دونوں کا اہم کردار رہا ۔ جہاں تک دونوں گروہوں میں تناؤ کا سوال ہے RSF کو ملک کی فوج میں ضم کرنے کیلئے بات چیت کے دوران اس کی شروعات ہوئی جو ملک میں سیول حکمرانی کو بحال کرنے کے منصوبہ کا ایک حصہ ہے اس دوران یہ کلیدی سوال تھا کہ کون کس کے تحت کام کرے گا اس طرح سوڈان میں اپنا اپنا تسلط قائم کرنے کی جنگ شروع ہوگئی یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ عمرالبشیر نے سوڈان پر تیس برسوں تک حکومت کی اور پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب روٹی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کے خلاف عوام زبردست احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے یا انہیں احتجاج کیلئے سڑکوں پر لایا گیا ۔ عمرالبشیر کی حکمرانی کے دوران ہی جنوبی سوڈان شمالی سوڈان سے علحدہ ہوگیا جبکہ عالمی فوجداری عدالت نے بشیر کیلئے وارنٹ گرفتاری جاری کیا اور ان کے خلاف عالمی عدالت نے یہ وارنٹ دارفور میں ان کے مبینہ جنگی جرائم کی پاداش میں جاری کیا تھا ۔ دارفور ایک علحدہ مغربی علاقہ ہے ۔ عمرالبشیر کی معزولی کے بعد سوئیلین گروپس اور فوج کے درمیان ایک اتحاد تشکیل پایا اور اس اتحاد نے اقتدار سنبھالا لیکن اس اتحاد میں باہمی اعتماد کا فقدان پایا جاتا تھا اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ یہ اقتدار 2021کو اپنے اختتام کو پہنچا اور مسلح افواج نے اتحادی حکومت کو اقتدار سے بیدخل کردیا ۔ سابق سوڈانی وزیر احمد ہارون کا جو خود انٹرنیشنل کریمنل کورٹ ( آئی سی سی ) کو شدت سے مطلوب ہیںکہنا ہیکہ حالیہ عرصہ کے دوران خرطوم کی مرکزی جیل سے کثیر تعداد میں قید فرار ہوگئے جن میں سابق حکومت کی اہم شخصیتیں بھی شامل ہیں اور جن اہم شخصیتوں کو اس جیل سے رہائی دلائی گئی ان میں غیر تصدیق شدہ رپورٹس کے مطابق عمرالبشیر بھی شامل ہیں سال 2000 کے اوائل میں دار فور تنازعہ یا لڑائی کے دوران وہ سوڈان کی بدنام زمانہ خجاوید فورسس کے قائد تھے اس فورسس پر حقوقی انسانی کی سنگین خلاف ورزیوں اور مظالم کے الزامات عائد کرتے ہوئے مقدمات دائر کئے گئے ۔ اور جب اس گروپ کے خلاف عالمی سطح پر سوالات اُٹھائے جانے لگے تب عمر البشیر نے اسے پیراملٹری فورسس میں تبدیل کردیا اور پھر وہ بارڈر انٹیلجنس یونٹس کے نام سے جانے جانے لگا ۔ 2007 میں اس کے سپاہی ملک کی انٹیلجنس سروسس کا حصہ بن گئے اور 2013 میں عمرالبشیر نے RSF تشکیل دی جو ایک پیراملٹری گروپ تھا جس کی نگرانی خود بشیر کرتے تھے جبکہ اس کی قیادت دغالو کے ہاتھوں میں تھی لیکن حالات ایسے بدلے کہ 2014 میں دغالو بشیر کے خلاف ہوگئے حالانکہ خرطوم میں دغالو کی فورس نے عمرالبشیر کے خلاف احتجاج کررہے موافق جمہوری مظاہرین پر فائرنگ کردی جن میں کم از کم 118 افراد مارے گئے تھے بعد میں دغالو کو اقتدار منتقل کرنے والی کونسل کا نائب سربراہ بنایا گیا ، جس نے سوئیلین لیڈر شپ کے ساتھ مل کر سوڈان پر حکومت کی ۔ سوڈانی اور علاقائی سفارت کاروں کے ذرائع نے سی این این کو بتایا کہ اس لڑائی میں روس کے کرایہ کے سپاہیوں کا گروپ Wagner بھی کوڈ پڑا جو RSF کو بڑے پیمانے پر میزائل سربراہ کررہا ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ زمین سے فضاء میں مار کرنے والے میزائیلوں کے باعث RSF پیراملٹری جنگجووں کو اپنے مخالفین کے خلاف زبردست مدد مل رہی ہے ۔
جولائی 2022 میں سی این این کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ فوجی اور سیاسی سپورٹ کے عوض سوڈان کی فوجی قیادت نے ملک میں موجود سونے کی کانوں تک روس کو رسائی دے دی ۔ دغالو کی فورس کو روس کی فوجی تربیت اور اسلحہ بڑے پیمانے پر حاصل ہوا ساتھ ہی سوڈانی فوجی لیڈر برہان کو بھی روسی اسلحہ مل رہے ہیں لیکن وہ سوڈان میں کرایہ کے روسی سپاہیوں کی موجودگی سے انکار کیلئے مجبور ہیں ۔ برہان اور دغالو کے کیریئر ایک دوسرے کافی ملتے چلتے ہیں اور دونوں کا عروج بھی سال 2000 میں نظر آیا اور دارفور میں ہی دونوں پہلی مرتبہ ایک دوسرے کے ربط میں آئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو خلیج کے مراکز اقتدار کی بھی تائید و حمایت حاصل رہی اور دونوں کے سپاہیوں نے یمن میں سعودی عرب کے مفادات کے تحفظ کا کام بھی انجام دیا اور اب دونوں ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما ہیں بتایا جاتا ہے کہ سوڈان میں فوج کی تعداد 210,220,000 ہے جبکہ RSF کی تعداد 70000 ہے ۔