سچ کون بولتا ہے اداکار کون ہے

,

   

7 نریندر مودی … چور کی بومڑی سب سے آگے
7 ممتا بنرجی کی جراتمندی … متنازعہ فلموں کی سیاست

رشیدالدین
عام طور پر چور اپنے جرم سے بچنے کیلئے ہجوم میں سب کے ساتھ چور چور پکارنے لگتا ہے تاکہ توجہ اس پر سے ہٹ جائے۔ دکنی زبان میں مثل مشہور ہے ’’چور کی بومڑی سب سے آگے‘‘۔ ظاہر ہے کہ جب چور خود دوسرے کا پیچھا کرنے لگے تو عوام کی توجہ اصلی چور سے ہٹ جاتی ہے اور بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔ بعض افراد اپنے جرائم کی پردہ پوشی کیلئے دوسروں پر الزامات عائد کرتے ہیں۔ ایسے افراد کیلئے کہا گیا ہے کہ ایک انگلی کسی کو دکھائی جائے تو باقی انگلیاں خود اپنی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ نریندر مودی اور بی جے پی کا حال کچھ اسی طرح ہے۔ انتخابی ریالیوں میں روزانہ کسی نہ کسی پر انگلی اٹھانا مودی کی عادت بن چکی ہے ۔ اپوزیشن پارٹیوں اور ان کے قائدین پر الزام تراشی ’’چور کی بومڑی سب سے آگے‘‘ کے مصداق ہے۔ آدمی جس جرم میں مبتلا ہوتا ہے ، اسے دوسرے بھی مجرم دکھائی دیتے ہیں ۔ سیاسی مبصرین اور میدان سیاست کی جہاندیدہ شخصیتوں سے ہم نے سنا ہے کہ آدمی جس رنگ کی عینک لگائے اسے ساری دنیا اسی رنگ میں دکھائی دیتی ہے۔ نریندر مودی کے عوام میں تعارف کیلئے مذکورہ مثالیں یقیناً کافی ہوجائیں گی۔ لوک سبھا انتخابی مہم کے سلسلہ میں مودی جس ریاست کا دورہ کرتے ہیں ، وہاں کی اپوزیشن کو کرپٹ قرار دیتے ہوئے عوام میں الجھن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے الزامات دراصل ایک دھمکی کی طرح ہے کہ اگر بی جے پی کی مخالفت ختم نہیں کی گئی تو سی بی آئی اور ای ڈی آجائیں گے۔ فلم شعلہ میں گبر سنگھ کا مشہور ڈائیلاگ ہے ’’پچاس میل دور جب بچہ روتا ہے تو ماں کہتی ہے بیٹا سوجا ورنہ گبر سنگھ آجائے گا‘‘۔ آج کے سیاسی ماحول کے گبر سنگھ نریندر مودی ہیں جو اپوزیشن کو سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کی کارروائیوں کی بالواسطہ دھمکی دے رہے ہیں۔ کسی بھی پارٹی یا قائد کو کرپٹ قرار دینے سے قبل نریندر مودی کو 10 سالہ حکمرانی کے دوران کرپٹ اور اسکام میں ملوث پارٹیوں اور قائدین کی فہرست جاری کرنی چاہئے ۔ مودی ایماندار اور بے ایمان پارٹیوں سے عوام کو آگاہ کردیں ورنہ وقت کے ساتھ ساتھ کرپشن کی فہرست میں تبدیلی ہورہی ہے۔ کل کے ایماندار اچانک بے ایمانوں کی فہرست میں شامل کردیئے گئے اور بے ایمانوں کو کلین چٹ دے دی گئی ۔ ایمانداری اور بے ایمانی کے سرٹیفکٹ مودی کی دستخط سے بی جے پی جاری کر رہی ہے۔ بی جے پی اور نریندر مودی پہلے یہ طئے کریں کہ کرپشن اور ایمانداری کا پیمانہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی کا جواب یہی ہوگا کہ جو ہماری تائید کرے ، وہ ایماندار اور جو مخالفت کرے وہ کرپٹ ۔ 2014 سے آج تک بی جے پی نے خود اپنے سرٹیفکٹس کو موقع محل کے اعتبار سے تبدیل کیا ہے۔ نتیش کمار کے لئے مودی سرٹیفکٹ کئی بار تبدیل کیا گیا ۔ نتیش کمار نے مودی کا ساتھ چھوڑ دیا تو بہار میں جنگل راج اور کرپشن کا الزام لیکن این ڈی اے میں واپسی پر اچانک ایمانداری کا انعام دیا گیا۔ نتیش کمار نے جس طرح وقفہ وقفہ سے سرٹیفکٹس تبدیل کئے، وہ خود اپنے میں ایک ریکارڈ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کل تک جو کرپٹ تھے، وہ بی جے پی کا ہاتھ تھامتے ہی کس طرح ایماندار بن جاتے ہیں ؟ اس کے علاوہ کرپشن کے تمام پر الزامات یکایک کیسے واپس لئے گئے۔ دراصل بی جے پی کی واشنگ مشن میں مودی ڈیٹرجنٹ پاؤڈر سے دھلائی مخالفین کے سارے گناہوں کو دھو دیتی ہے اور دودھ سی سفیدی والا معاملہ ہوجاتا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ٹاملناڈو پہنچ کر نریندر مودی نے کہا کہ ڈی ایم کے کرپشن اور اسکام کا دوسرا نام ہے۔ ڈی ایم کے جب دوسرا نام ہے تو پھر پہلا نام کس کا ہے ؟ ہر ریاست میں کوئی نہ کوئی پارٹی اور لیڈر مودی کیلئے کرپشن کا دوسرا نام بن جاتا ہے ۔ چندرا بابو نائیڈو ، مایاوتی اور وائی ایس جگن موہن ریڈی کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ پارلیمنٹ میں متنازعہ قوانین کی تائید پر بی آر ایس اور کے سی آر بھی ایماندار تھے لیکن الیکشن سے عین قبل کے سی آر کی دختر کو پہلے انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور پھر سی بی آئی نے گرفتار کر کے ہراسانی کا آغاز کیا تاکہ لوک سبھا چناؤ میں کے سی آر کو مفاہمت کیلئے مجبور کیا جائے۔ جب کسی کو کرپٹ کہہ دیا گیا تو دوستی کے بعد بھی کرپشن کے خلاف کارروائی کی جائے۔ دوسروں کو کرپشن اور اسکام کا دوسرا نام کہنے والے مودی پہلے الیکٹورل بانڈس اسکام کی وضاحت کریں۔ سپریم کورٹ میں بانڈس کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سیاسی پارٹیوں کے عطیہ دہندگان کی فہرست کو عوام میں پیش کردیا۔ الیکٹورل بانڈ سے سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہوا اور یہ انکشاف خود کرپشن اور اسکام کا ثبوت ہے۔ شراب اسکام میں ایک ملزم جو گواہ معافی یافتہ بن گیا ، اس نے بی جے پی کو بھاری ڈونیشن دیا تھا۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ شراب اسکام کی معاملت بی جے پی اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی ۔ مودی جب کسی پر الزام لگاتے ہیں تو وہ دراصل سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کی دھمکی ہوتی ہے۔ ملک میں ہزاروں اور سینکڑوں کروڑ کے اسکام میں ملوث کئی قائدین جیسے ہی بی جے پی میں شامل ہوئے ، ان کے تمام الزامات مودی ڈیٹرجنٹ سے ختم ہوگئے۔
ملک میں پہلے اور دوسرے مرحلہ کے لوک سبھا انتخابات کی مہم عروج پر ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی بی جے پی کے واحد اسٹار کیمپینر ہیں جو ملک بھر میں انتخابی مہم کا بیڑہ اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی نے پارٹی کے دیگر سینئر قائدین امیت شاہ اور جے پی نڈا کو بھی غیر اہم بنادیا ہے ۔ بی جے پی میں گزشتہ پانچ برسوں سے مودی کا ون میان شو عروج پر ہے اور رائے دہندے بھی صرف ایک چہرہ سے بیزار دکھائی دے رہے ہیں۔ الیکشن آتے ہی نریندر مودی اور وہی جملہ بازی نے عوام کو مایوس کردیا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ عوام اپنی بیزارگی کا اظہار لوک سبھا الیکشن میں ووٹ کے ذریعہ کرپائیں گے یا نہیں ؟ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں اپوزیشن اور عوام کے شبہات برقرار ہیں۔ سپریم کورٹ نے ووٹنگ مشین کے ووٹوں کے ساتھ ساتھ وی وی پیاٹ کی گنتی سے متعلق اپوزیشن کی درخواستوں کو سماعت کیلئے قبول کرلیا ہے ۔ الیکشن کمیشن شروع سے انکار کر رہا ہے کہ وہ مشینوں کے علاوہ وی وی پیاٹ کی گنتی نہیں کرے گا ۔ عوام کو سپریم کورٹ سے انصاف کی امید ہے۔ اگر ووٹنگ مشین کے ووٹوں کا وی وی پیاٹ کے ذریعہ تقابل کیا جائے تو مشینوں کی اصلیت بے نقاب ہوجائے گی۔ کئی ماہرین نے مشینوں کے نقائص کو بے نقاب کیا لیکن الیکشن کمیشن ماننے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ اب تو یہاں تک کہا جارہا ہے کہ بیرونی ادارے ہندوستان کے الیکشن میں مداخلت کرتے ہوئے مودی کی کامیابی کو یقینی بنائیں گے۔ کانگریس نے لوک سبھا کیلئے انتخابی منشور جاری کیا لیکن نریندر مودی نے انتخابی منشور کو مسلم لیگ اور محمد علی جناح سے جوڑ کر پھر ایک بار گھٹیا مذہبی منافرت کی سیاست کی ہے ۔ بی جے پی کے پاس گزشتہ 10 برسوں میں ایسا کوئی رپورٹ کارڈ نہیں کہ جسے کارنامہ کے طور پر پیش کیا جائے۔ 10 برسوں میں نریندر مودی نے صرف عوام کی مشکلات اور مسائل میں اضافہ ہی کیا ہے ۔ کانگریس نے عوام کی ضرورتوں کے عین مطابق انتخابی منشور تیار کیا لیکن بی جے پی اسے بھی مذہبی رنگ دے رہی ہے۔ ویسے بھی سیاست میں مذہب کا استعمال بی جے پی کیلئے کوئی نئی بات نہیں۔ الیکشن میں حکومت کی کارکردگی یا پھر اپنے وعدوں کو پیش کرتے ہوئے عوام سے ووٹ کی اپیل کی جاتی ہے لیکن بی جے پی نے نفرت پر مبنی فلموں کا سہارا لیا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں کشمیر فائلز ، کیرالا اسٹوری ، رضاکار اور دیگر کئی عنوانات سے متنازعہ فلمیں تیار کی گئیں جن کا مقصد سماج میں ہندو اور مسلمان کے نام پر تفرقہ پیدا کرنا ہے ۔ کشمیر میں سیاسی فائدہ کیلئے فلم کشمیر فائلز اور کیرالا میں کیرالا اسٹوری کی بڑے پیمانہ پر تشہیر کی جارہی ہے۔ سوشیل میڈیا پلیٹ فارم پر متنازعہ فلمیں وائرل کردی گئیں جن کا بنیادی مقصد سیکولر رائے دہندوں کو خوفزدہ کرتے ہوئے ہندو ووٹ بینک کو مستحکم کرنا ہے ۔ ملک میں بہت کم قائدین ایسے ہیں جو جرات مندی کے ساتھ فرقہ پرستوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان میں ممتا بنرجی سرفہرست ہیں جو خاتون ہونے کے باوجود نریندر مودی اینڈ کمپنی کی نیند حرام کرچکی ہیں۔ ممتا بنرجی نے اعلان کیا کہ مغربی بنگال میں این آر سی ، سی اے اے اور یکساں سیول کوڈ پر عمل نہیں کیا جائے گا ۔ ممتا بنرجی وہ واحد اپوزیشن لیڈر ہیں جنہوں نے نریندر مودی اور بی جے پی کی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کی۔ غیر بی جے پی اور کانگریس زیر قیادت ریاستوں نے بھی این آر سی اور سی اے اے پر عمل آوری کے خلاف فیصلہ کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ لوک سبھا چناؤ کارکردگی کی بنیاد پر ہوں گے یا پھر فرقہ وارانہ ایجنڈہ پر۔ معراج فیض آبادی کا یہ شعر حالات کی ترجمانی کیلئے کافی ہے ؎
یہ فیصلہ تو وقت بھی شائد نہ کرسکے
سچ کون بولتا ہے اداکار کون ہے