سکریٹریٹ کے احاطہ میں موجود دو مساجد اور ایک مندرکو خطرہ؟

   

نئے پلان کے مطابق حکومت منتقلی کی خواہاں، سرکاری ملازمین اور عوام کی مخالفت یقینی
حیدرآباد ۔ 25۔جون (سیاست نیوز) چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ 27 جون کو نئے سکریٹریٹ کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھیں گے لیکن سکریٹریٹ کے احاطہ میں موجود دو مساجد اور ایک مندر کے بارے میں حکومت نے ابھی تک کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔ حکومت نے نئے سکریٹریٹ کامپلکس کا جو نقشہ تیار کیا ہے، اس میں مسجد اور مندر کا کہیں تذکرہ دکھائی نہیں دیتا ۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت عبادت گاہوں کو منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تاکہ سکریٹریٹ کامپلکس طئے شدہ پلان کے مطابق تعمیر ہوسکے۔ اب جبکہ تقریب سنگ بنیاد کیلئے صرف دو دن باقی ہے، حکومت نے سکریٹریٹ کے ملازمین کو عبادتگاہوں کے بارے میں اپنے فیصلہ سے واقف نہیں کرایا ہے جس کے نتیجہ میں ہندو اور مسلمان سرکاری ملازمین میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے حکومت سکریٹریٹ کے درمیانی حصہ میں واقع نلہ پوچماں مندر اور سی بلاک سے متصل مسجد دفاتر معتمدی اور ڈی بلاک سے منسلک مسجد ہاشمی کو کسی اور مقام پر منتقل کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ دفاتر سے ہٹ کر عبادتگاہوں کا علحدہ مقام بنایا جائے۔ عبادت گاہوں کی منتقلی کی صورت میں موجودہ عمارتوں کو منہدم کرنا پڑے گا جو حکومت کے لئے تنازعہ کا سبب بن سکتا ہے۔ ہندو ہو یا مسلمان کوئی بھی اپنی عبادت گاہ کو منہدم کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا ۔ سکریٹریٹ کے ملازمین نے بتایا کہ دفاتر معتمدی کی مسجد اور پوچماں ٹمپل گزشتہ کئی دہوں سے موجود ہیں اور انہیں منتقل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔

سکریٹریٹ کے ملازمین مندر میں ہر سال بڑے پیمانہ پر بونال کا تہوار مناتے ہیں۔ اس کے علاوہ روزانہ باقاعدہ پوجا کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں کئی عہدیدار اور ملازمین شرکت کرتے ہیں۔ یہ مندر چیف منسٹر کے سی بلاک کے روبرو موجود ہے اور 2012 ء میں اس کی توسیع کی گئی۔ سکریٹریٹ کے ہندو ملازمین نے مسجد کے تحفظ کے لئے ابھی سے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اگر چاہے تو نئے سکریٹریٹ کے لئے موجودہ بلاکس کو منہدم کرسکتی ہے لیکن ہم اس مندر سے جذباتی طور پر وابستہ ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ مندر اسی مقام پر برقرار رہے۔ سابق میں حکومتوں نے نئے بلاکس کی تعمیر کے وقت عبادتگاہوں کو اسی مقام پر برقرار رکھا تھا ۔ کانگریس دور حکومت میں سی بلاک سے متصل مسجد دفاتر معتمدی کی تعمیر نو کی گئی اور آج ایک خوبصورت مسجد کھڑی ہے جہاں بیک وقت کئی سو افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈی بلاک سے منسلک مسجد حسینی ہے۔ سابق میں حکومت نے ڈی بلاک کی نئی عمارت کی تعمیر کے وقت مسجد کو منہدم کرتے ہوئے اراضی کو عمارت میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن مسلمانوں کے احتجاج کے بعد اس فیصلہ کو واپس لے لیا گیا اور مسجد کا حصہ چھوڑ کر ڈی بلاک تعمیر کیا گیا تھا ۔ اب جبکہ کے سی آر تمام موجودہ بلاکس کو منہدم کرتے ہوئے نیا کامپلکس تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں دو مساجد اور ایک مندر کے وجود کو خطرہ دکھائی دے رہا ہے۔ کیا حکومت عبادتگاہوں کی منتقلی کے سلسلہ میں مذہبی شخصیتوں سے بات چیت کرچکی ہے؟ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ چیف منسٹر نے آر اینڈ بی عہدیداروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ مسجد اور مندر کی منتقلی کے بغیر ہی پلان تیار کریں لیکن ڈیزائین تیار کرنے والوں نے حکومت کو بتایا کہ عبادتگاہوں کو ہٹائے بغیر اراضی کا بہتر استعمال ممکن نہیں ہے۔ وزیر عمارت و شوارع وی پرشانت ریڈی کی زیر قیادت کابینی سب کمیٹی نے بتایا جاتا ہے کہ ملازمین کو راضی کرتے ہوئے عبادت گاہوں کی منتقلی کی سفارش کی ہے۔ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ عبادتگاہوں کے مسئلہ پر قطعی فیصلہ چیف منسٹر کریں گے۔ سکریٹریٹ کے ملازمین کو یقین ہے کہ حکومت کا کوئی بھی متنازعہ فیصلہ عوامی احتجاج کا سبب بن سکتا ہے ۔ چیف منسٹر چار سو کروڑ کی لاگت سے نئے سکریٹریٹ کامپلکس کی تعمیر کا منصوبہ رکھتے ہیں۔