سیدُ الشهداء حضرتِ سیدنا امیر حمزہ ؓ

   

مرسلہ : مولانا محمد علی شاہ
سَر زمینِ عرب پر غزوہ اُحد کو رُونما ہوئے ۴۶سال کا عرصہ گزر چُکا تھا کہ حضرتِ سیّدنا امیر معاویہ ؓکے دورِ حکومت میں میدانِ اُحُد کے درمیان سے ایک نہر کی کھدائی کے دوران شہدائے اُحد کی بعض قبریں کھل گئیں۔ اَہلِ مدینہ اور دوسرے لوگوں نے دیکھا کہ شہدائے کرام کے کفن سلامت اور بدن تَرو تازہ ہیں اور انہوں نے اپنے ہاتھ زخموں پر رکھے ہوئے ہیں۔ جب زخم سے ہاتھ اُٹھایا جاتا تو تازہ خون نکل کر بہنے لگتا۔ اس دوران اتفاق سے ایک شہید کے پاؤں میں بیلچہ لگ گیا جس کی وجہ سے زخم سے تازہ خون بہہ نکلا۔ یہ شہید کوئی اور نہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلم کے معزر چچا اور رضاعی بھائی اسد اللہ اسدُ الرسول اسدُ الجنة اميرِ طيبه خیرُالشُّہَداء، سیدُ الشهداء حضرتِ سیدنا امیر حمزہ بن عبد المطلب ؓ تھے۔
پیدائش وکنیت و حلیہ و مشاغل : : راجح قول کے مطابق آپؓ کی ولادت نبی اکرم ﷺکی اس دنیا میں جلوہ گری سے دو سال پہلے ہوئی۔ آپؓ کی کنیت ابو عّمارہ ہے۔ آپؓ بہت حسین و جمیل تھے، خوبصورت پیشانی، درمیانہ قد، چَھرِیرا (دبلا پتلا) بدن، گول بازو جبکہ کلائیاں چوڑی تھیں۔ شعر و شاعری سے شغف تھا۔ شمشیر زنی، سیر و سیاحت ، شکار ، تیراندازی اور پہلوانی کا بچپن سے شوق تھا۔
قبول اسلام: ایک مرتبہ شکار سے لوٹ کر گھر پہنچے تو اطلاع ملی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے محمد (ﷺ) کے ساتھ ناروا اور گستاخانہ سلوک کیا ہے۔ یہ سنتے ہی جوشِ غَضَب میں آپے سے باہر ہو گئے پھر کمان ہاتھ میں پکڑے حرمِ کعبہ میں جا پہنچے اور ابوجہل کے سر پر اس زور سے ضرب لگائی کہ اس کا سر پھٹ گیا اور خون نکلنے لگا، پھر فرمایا: میرا دین وہی ہے جو میرے بھتیجے کا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللّٰه کے رسول ہیں، اگر تم سچے ہو تو مجھے مسلمان ہونے سے روک کر دکھاؤ۔گھر لوٹے تو شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ تمہارا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا ہے کیا تم اپنا دین بدل دو گے؟ آپ ؓ کی پوری رات بے چینی اور اضطراب میں گزری، صبح ہوتے ہی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور اس پریشانی کا حل چاہا تو رحمتِ عالم ﷺ نے آپؓ کی طرف توجہ فرمائی اور اسلام کی حقانیت اور صداقت ارشاد فرمائی، کچھ ہی دیر بعد آپؓ کے دل کی دنیا جگمگ جگمگ کرنے لگی اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں۔
بارگاہِ رسالت ﷺمیں مقام و مرتبہ: پیارے آقا محمدِ مصطفےٰ ﷺ آپؓ سے بے حد محبّت کیا کرتے اور فرماتے تھے کہ میرے چچاؤں میں سب سے بہتر حضرتِ حمزہ (رضیَ اللّٰهُ تعالیٰ عنه) ہیں۔
زیارتِ جبریل کی خواہش: ایک مرتبہ آپؓ نے بارگاہِ رسالت میں درخواست کی کہ میں حضرتِ جبریل علیهِ السَّلام کو اصلی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں، ارشاد ہوا: آپ دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے، آپ نے اصرار کیا تو نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: زمین پر بیٹھ جائیے۔ کچھ دیر بعد حضرت جبریل امین ؑحرمِ کعبہ میں نصب شدہ ایک لکڑی پر اترے تو سرورِ عالم ﷺنے ارشاد فرمایا: چچا جان نگاہ اٹھائیے اور دیکھئے، آپؓ نے جونہی اپنی نگاہ اٹھائی تو دیکھا کہ حضرتِ جبریل علیهِ السَّلام کے دونوں پاؤں سبز زَبَرجَد کے ہیں، بس! اتنا ہی دیکھ پائے اور تاب نہ لاکر بے ہوش ہو گئے۔
کارنامے: رَمَضانُ المبارک ۱ ہجری میں۳۰ سواروں کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی لشکر کا سب سے پہلا علَم آپؓ نے سنبھالا۔ اگرچہ لڑائی کی نوبت نہ آئی لیکن تاریخ میں اسے ’’سرِیّہ حمزہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ۲ ہجری میں حق و باطل کا پہلا معرکہ میدانِ بدر میں پیش آیا تو آپؓ بڑے جوش و جذبے کے ساتھ شریک ہوئے اور مشرکین کے کئی سورماؤں کو ٹھکانے لگایا۔ آپؓ اپنے سَر پر شتر مرغ کی کلغی سجائے ہوئے تھے جبکہ دونوں ہاتھوں میں تلواریں تھامے اسلام کے دشمنوں کو واصِل جہنَّم کرتے اور فرماتے جاتے کہ میں اللّٰه اور اس کے رسو ل ﷺ کا شیر ہوں۔
شہادت: ۱۵ شّوالُ المکرم ۳ ہجری غزوہ اُحد میں آپؓ نہایت بے جگری سے لڑے اور ۳۱کفّار کو جہنّم واصِل کر کے شہادت کا تاج اپنے سر پر سجا کر اس دنیا سے رُخْصت ہو گئے۔ دشمنوں نے نہایت بے دردی کے ساتھ آپؓ کے ناک اور کان جسم سے جُدا کر کے پیٹ مبارک اور سینئہ اقدس چاک کر دیا تھا اس جگر خراش اور دل آزار منظر کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺکا دل بے اختیار بھر آیا اور زبانِ رسالت پر یہ کلمات جاری ہو گئے: آپ پر اللّٰه تعالیٰ کی رحمت ہو کہ آپ قرابت داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے اور نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔
نمازِجنازہ ومدفن: شہدائے احد میں سب سے پہلے آپؓکی نمازِ جنازہ ادا کی گئی پھر ایک ایک شہید کے ساتھ آپؓ کی بھی نماز پڑھی گئی جبکہ ایک روایت کے مطابق دس دس شہیدوں کی نماز ایک ساتھ پڑھی جاتی اور ان میں آپؓ بھی شامل ہوتے یوں اس فضیلت میں آپؓ منفرد ہیں اور کوئی آپؓ کا شریک نہیں ہے۔ جبلِ اُحد کے دامَن میں آپؓ کا مزار دعاؤںکی قبولیّت کا مقام ہے۔اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو آمین۔
(اخذ و استفادہ : دلائل النبوۃ للبیہقی، طبقات ابن سعد و دیگر کتب )