سی اے اے کے حوالے سے عدلیہ کی کھوئی ہوئی آواز کی تلاش۔ اجیت پرکاش شاہ سابق چیف جسٹس دہلی ہائی کورٹ

,

   

عدلیہ کے لئے یہ لمحہ نہایت چوکنا رہنے کا ہے اور ججوں کے لئے مستقبل میں کی گئی غلطیوں کا سدھار بھی ہے
حالیہ عرصہ میں شہریت قانون میں ترمیمات کوروبعمل لانے کی وجہہ سے نہ صرف کئی بلکہ میں خود حیران ہوگیا ہوں۔مذکورہ قانون خود اپنے آپ میں بلاشبہ ایک مسئلہ ہے اور اس کو قومی رجسٹربرائے شہریت (این آرسی) سے جوڑنے کاکام کیاجارہا ہے۔

آسام میں این آرسی کی تعیناتی پر میں ایک عوامی ٹربیونل کا حصہ تھا اور ہم نے سپریم کورٹ کی نگرانی میں اس کو کرائے جانے کے بعد بھی‘ اس کے خوفناک نتائج پریشان کن مشق کے ساتھ رونما ہوئے ہیں۔

شہریت ترمیمی ایکٹ(سی اے اے) 2019کے پیش نظر احتجاجی مظاہرے حیران کرنے والے ہرگز نہیں ہیں مگر جس انداز میں مظاہرین کے ساتھ رویہ اختیار کیاجارہا ہے وہ حیران کن ہے۔

طلبہ کے زیرقیادت احتجاج کے دوران ملک بھر میں پیش ائے پرتشدد واقعات جس میں عوامی املاک کو نقصان پہنچا ہے اس پر لاء اینڈ آرڈر کو قائم رکھنے والی مشنری کا ردعمل نہایت بدقسمتی کی بات ہے

۔ اس وقت کی عکاسی ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں اور ہمارے ملک کے نوجوانوں کی طرف اشارہ ہے کہ ایک قیادت کے لئے ایک اہم جدوجہد کرنے کی‘ جو بیک وقت فرقہ وارایت اور عامریت کے خلاف ہے

محکوم عدلیہ
ایسے وقت میں ہمدردی محض ایک فطری ردعمل ہے‘ بالخصوص اس نسل کے لئے جو ایمرجنسی کے دورے سے گذری ہے اور بدترین عامرانہ دور حکومت دیکھا بھی ہے۔

اس تناظر میں میں ذاتی طور پر جو محسوس کرتاہوں کہ نہایت خراب ہے جو عدلیہ کی آواز کے متعلق ہے جو اس کہانی میں یاتو غیر حاضر ہے یا پھر کسی مضبوط ایکزیکٹیو کے ذریعہ دبا دی گئی ہے۔

مذکورہ سی اے اے سمجھا جارہا ہے کہ ”فاسٹ ٹریک“ ہے ان لوگوں کو شہریت فراہم کرنے کے لئے جو ظلم وستم کا شکار تین پڑوسی ممالک (افغانستان‘ بنگلہ دیش اور پاکستان) کے اقلیتی طبقات (ہندو‘ سکھ‘ بدھسٹ‘ عیسائی‘ جین اور پارسی) ہیں۔ قانون کے مطابق ان ممالک سے تعلق رکھنے والے مذکورہ طبقات کو ”غیر قانونی تارکین وطن‘’تصور نہیں کیاجائے گا

پابندی پر مشتمل خلاصہ
جب سے بل کی تجویز کی گئی ہے اور بالآخر اس کا نفاذ عمل میں آنے کے بعد ہم نے دیکھا ہے کہ ہمہ قسم کے نقطہ نظر ابھر کر سامنے الے ہیں اس قانون کی وضاحت اور اس کے اردگر د گھوم رہی سیاست میں متعدد قسم کے فریم ورکرس بھی پیش کئے جارہے ہیں۔

ابتدائی طور نہایت اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ قانون غیر ائینی ہے۔ اس کے وجوہات بھی کئی ہے‘ کم از کم یہ ایک ہٹ دھرمی ہے اور دستور ہند کے ارٹیکل 14میں دئے گئے مساوات کے حق کی خلاف ورزی ہے۔

جان بوجھ کر مسلمانوں کو اقلیتی کمیونٹی کے طور پر پسماندہ کرتا ہے اور شہریت کی فراہمی کے لئے مذہب شناخت کا استعمال کیاجارہا ہے۔

اسی وجہہ سے یہ ائین کی روح کے خلاف میں بھی ہے۔مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ظلم وستم کی بنیاد پر ہندوستانی شہریت کی فراہمی کے لئے کوئی قانون نہیں ہے‘ ٹھیک اسی طرح محض تین ممالک کے افراد کے لئے ”فاسٹ ٹریک“ کو محدود کرنے میں بھی کوئی منطق نہیں ہے۔

بے شک تارکین وطن کو شہریت کی فراہمی کے لئے ظلم وستم کا واحد معیار ہونا چاہئے۔ اس انداز ظلم وستم کی وضاحت کو محدود کردینا‘ جمہوری ہندوستان کی بنیادوں پر کارضرب ہے اور آزادی کی جدوجہد کے تاریخی حقائق (جو مساوات او رنتوع کے اصولوں پرلڑی گئی) جس کے بنیاد پر آزادی ملی ہے اس کے مغائر ہے۔

متبادل پس منظر بھی اس میں موجود ہے‘ اس کے مقدمقابل‘ اس سونچ کو بڑھاوا دیا جارہا ہے کہ سی اے اے سے کوئی نقصان نہیں ہے اور مخصوص نقل مقامی کے لئے ایک تیزی کا راستے ہے جس کے ذریعہ عام معافی کی پیشکش کی جارہی ہے۔

اس بحث کی دلیل ہے کہ یہ مذکورہ سی اے اے نقصان دہ نہیں ہے‘ اور ائین سازی کے سوال سے یہ اہم مسئلہ بن گیاہے۔ پوشیدہ چیزوں کی صفائی میں یہ کوشش ہے کہ قانون کے عظیم ڈائزین کایہ ایک چھوٹا حصہ ہے

ایک مذہبی قوم پرستی
آپ اچھی طرح سے پوچھ سکتے ہیں کہ عظیم ڈائزین کیا ہے۔سی اے اے کے نفاذ کے مضمرات مسلم سماج سے تعلق رکھنے والے کی شناخت کو الگ تھلگ کرنا ہے۔

اگر آپ قانون کی تفہیم پر پابندی عائد کرتے ہیں حکومت کے پاس خود اس کا اطلاق ہے کہ یہ صرف تارکین وطین پر لاگو ہوتا ہے‘ پھر یہ قانون خود بخود مسلم تارکین وطن کے لئے دوسرے نمبر کی ترجیحات پر پہنچادیتا ہے‘

اگر وہ ہندوستانی سرزمین پر ہیں تو‘ یہاں تک کہ وہ طویل مدت سے کسی نہ کسی وجہہ (غریب‘ سیاسی ظلم وستم وغیرہ)سے ہندوستان میں ہیں‘ جس کی وجہہ سے ان کے ہندو اور عیسائی پڑوسی باہر نکلے ہیں۔

اگر آپ اس قانون کو تفصیلی طور پر سمجھنا چاہیں گے جیسا کہ حکومت نے (این آرسی اور سی اے اے سے) جوڑ دیاہے اس کا نفاذ تمام ہندوستانی مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنادے گا۔

ایسا کرنے سے یہ قانون اور پالیسیوں کو بنیادی ائینی اصولوں اور سکیولرزم‘انسانیت اور بھائی چارہ کو تباہ کردیا گیا۔ اس جھوٹ کی مذکورہ جڑیں نظریات‘ ثقافت اور مذہبی قوم پرستی کا پروپگنڈہ کرنے والے ہندوتوا کی علامت یعنی وی ڈی ساورکر اور ان کے لوگوں سے ملتی ہے‘ جس کے ساتھ ساورکر نے یہ مثال پیش کی تھی کہ ”ہندو راشٹرا‘ ہندو جاتی‘ ہندو سنسکرتی“۔

مذہبی قوم پرستی کے تحت یہ نظریہ ہندو اقتدار‘ ایک ہندو راشٹراکے تحت ایک قوم تصور کرتا ہے۔ان عقائد کے تحت صرف ہندو ہی دعوی کرسکتے ہیں کہ برطانوی ہندوستان ان کی اور ان کے اجداد کی مادر وطن یعنی پتر بھومی اور ان کی مذہبی سرزمین ہے یعنی پونیا بھومی۔

اس تناظر میں مسلمان اور عیسائی کو غیرملکی تصور کیاجائے جو خطہ ہند کے مقامی نہیں ہیں‘ اور جس کے مذہب کی بنیاد علیحدہ مقدس زمین پر ہے۔میرا ذاتی پس منظر ان حوالوں کے ساتھ بہت سارے طریقوں سے جڑتا ہے۔

میرے پڑداد ا1940کے دہے میں ہندو مہاسبھا کے صدر تھے اور میں اپنے اسکول کے دنوں میں جو پہلی تحریرکی تھی وہ ساورکر کے کام پر تھی۔

سال1938کی تحریر میں جب ہٹلر عروج پر تھا‘ ساورکر نے ہٹلر کی پالیسیوں کو حق بجانب قراردیاتھا جس میں یہودیوں کو مادر وطن سے کھدیڑ کر نکالا جارہاتھا۔

انہوں نے کہاکہ ”ایک قوم کی تشکیل وہاں پر رہنے والے اکثریتی طبقہ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ یہودی جرمنی میں کیاکررہے ہیں؟۔

انہیں اقلیت میں رہنے کی وجہہ سے جرمنی سے نکال دیاگیاتھا“۔بچپن سے جو کچھ میں نے پڑھاتھا اور (اب تک بھی) جو سیکھا ہے ان کی شاعری سے‘ میں نے ہمیشہ ایک ادارے کے طور پر ہندومہاسبھا پر سوالات کھڑے کئے۔

ان کی کاروائی کو سمجھنے کی کوشش کررہاہوں۔ یہاں تک ان دنوں میں بھی ہٹلر او موسولینی جیسے وقت کے بڑے عامرانہ ذہن کے حامل لوگوں کے ساتھ بالخصوص ساورکر کا جنون متاثر کن رہا ہے۔

جانشینی‘ پسماندگی او راستبداد پسندی او رائینی حیثیت کے متعلق ہندومہاسبھا او ران کے جانشینوں کے نظریات متضاد ہیں‘ مگر اپنی مستقل مزاجی میں انہوں نے ہندورشٹرا کی خیالی سونچ کے متعلق خامیوں کا بھی انکشاف کیاہے او رانہیں جدید ہندوستان کی مذہبی تنوع‘ لسانیت اور ثقافتی حقیقت پسند نہیں ہے۔

چونکہ سی اے اے غیر اخلاقی ہے‘ ایک عوامی تحریک واضح اور ضروری ہے تاکہ ہندوستان کے ہندوستان کے ائینی سونچ کے بنیادی اصولوں کو بچایاجاسکے نہیں تو اس نظریہ کوتباہ کردیاجائے گاجو ہمیشہ کے لئے گہرے زخموں کی علامت بن جائے گا۔

سی اے اے کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی روشنی میں چیف جسٹس آف انڈیا نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ اگر لوگ‘ مظاہرین چاہتی ہیں ”سڑکو ں پر اتریں“ تو پھر انہیں عدالتوں سے رجوع ہونا پڑے گا۔

کچھ لوگوں نے اس خبر کو انتباہ کے طور پر بھی مطالعہ کیا‘ کو حصول انصاف کے لئے ایک شرط ہے۔ ہر حال اور جمہوریت میں احتجاج اور عدلیہ سے دستبرداری وہ اختیارات ہیں جو عوام کے لئے جائزطور پر دستیاب ہیں۔

درحقیقت احتجاج یا اختلاف جمہوریت کی زندگی ہے۔ مگر اسوقت عدلیہ کیاکرے گی جب سارا معاشرے احتجاجی صورت حال اختیار کرچکا ہے؟

ایسے حالات میں جو اب ہیں مظاہرین کواچھے یا برے قراردینے کے لئے کوئی واضح لکیر نہیں کھینچی جاسکتی ہے۔

اس طرح کے حالات سے نمٹنے میں ہندوستان کی عدالتوں کی ایک اہم تاریخ ہے جو حتمی ثالث کے طور پر سامنے ائی ہیں۔ خاص طور پرجب اس کاسامنا ایک طاقتور ایکزیکٹیو سے رہاہے اور اس کے لئے ایمرجنسی ایک مثال ہے۔

موجودہ نسل کے ججوں کے لئے وہ صفائی کرنے کا موقع ہے جو سال قبل ان کے پیش رواں نے ہندوستان کی عوام کے ساتھ کیاتھا۔بے صبری کے ساتھ ہم ان اصلاحات کے منتظر ہیں

اس مضمون کے محرک اجیت پرکاش شاہ جو کہ سابق چیف جسٹس دہلی ہائی کورٹ اور سابق چیرپرسن لاء کمیشن آف انڈیا ہیں۔