شادیوں میں وقت کی عدم پابندی ، مدعوئین کیلئے تکلیف دہ

   

رات دیر گئے تقاریب سے صبح کا وقت ضائع ، معلنہ وقت پر عمل کی ضرورت

حیدرآباد۔28اگسٹ(سیاست نیوز) رات دیر گئے تک شادی خانو ںمیں رہنے والی چہل پہل صبح کے وقت نیند سے بیدار ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہورہی ہے اور شہریو ںکا ماننا ہے کہ اگر نکاح اورولیمے کی تقاریب سنت کے مطابق وقت معینہ پر انجام دی جانے لگیں تو اس سے صبح کی بیداری میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کیو نکہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ صبح کے وقت کا سونا رزق کو روکتا ہے اور شہر حیدرآبا دمیں امت مسلمہ کا 60 فیصدسے زائد طبقہ صبح کے وقت سوتا ہے ۔ علامہ اقبالؒ نے شائد امت کے اس حال پر ہی جواب شکوہ میں یہ شعر لکھا تھا کہ :
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے !ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
تقاریب منعقد کرنے والے اگر وپت کی پابندی کرتے بھی ہیں تو ایسی صورت میں مہمانوںکی آمد میں ہونے والی تاخیر کے سبب تقاریب رات دیر گئے تک جاری رہنے لگی ہیں۔تقاریب کو رات دیر گئے تک جاری رہنے سے روکنے کیلئے اگر مہمان اور میزبان دونوں ہی وقت کی پابندی کرتے ہیں تو ایسی صورت میں وقت پر تقاریب کو ختم کیا جاسکتا ہے لیکن معاشرہ کے ایک طبقہ کا ماننا ہے کہ تجارتی برادری جو کہ تجارتی اداروں کو بند کرنے کے بعد تقاریب میں پہنچتی ہے اسی لئے تقاریب رات دیر گئے تک جاری رکھنی پڑتی ہے جس کی وجہ سے ملازم طبقہ کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ملازم طبقہ کو اپنے وقت پر خدمات کی انجام دہی کیلئے موجود رہنا پڑتا ہے اور وہ اپنے وقت پر سونے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن تجارتی اداروں کے دیر سے کھولے جانے کے کلچر نے شہر حیدرآباد میں تقاریب کو رات دیر گئے تک جاری رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ صبح کے وقت تجارتی اداروں کو اگر کھولا جانے لگے تو حالات یکسر تبدیل ہوسکتے ہیں کیونکہ واضح حدیث ہے کہ صبح کے وقت کا سونا رزق کو روکتا ہے اور رزق کے حصول کے ذرائع دوپہر کے قریب کھولے جا رہے ہیں جو کہ بازاروں میں رات دیر گئے تک گہما گہمی کا سبب ہیں۔اسلامی نظام سے اظہار بیزارگی صرف اسلامی احکام کے خلاف لب کشائی نہیں ہے بلکہ اسلامی احکام کو جانتے ہوئے ان پر عمل نہ کرنا بھی احکام شریعت سے بیزارگی کے اظہار کے مترادف ہے ۔ نکاح اور ولیمہ تقاریب کو رات دیر گئے تک جاری رکھنے کے سبب جو صورتحال پیدا ہورہی ہے اس کا نقصان نہ صرف تجارتی برادری و ملازمین کو ہونے لگا ہے بلکہ طلبہ کی تعلیم پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ جو لوگ رات دیر گئے تک تقاریب کو جاری رکھنے کا سبب بن رہے ہیں ان کے متعلق وقت پر تقاریب کا انعقاد کرنے والے داعی کا کہناہے کہ اس کے لئے مہمان ذمہ دار ہیں لیکن مہمانوں کی بڑی تعداد کا کہناہے کہ اکثر تقاریب میں تاخیر سے طعام کے آغاز اور عاقدین کی آمد کے سبب وہ شادی خانو ںمیں تاخیر سے پہنچنے لگے ہیں۔ جناب غوث محی الدین مؤظف ملازم سرکار نے بتایا کہ نکاح اور ولیمہ کی تقاریب سنت ہیں اور سنت پر عمل میں تاخیر مناسب نہیں ہے ۔ انہو ںنے اپنے تجربہ کی بنیاد پر کہاکہ شہر میں زیارت ‘ فاتحہ اربعین یا دیگر اس طرح کے مواقع پر مہمان وقت مقررہ پر پہنچ جاتے ہیں اور ان کیلئے جو ضیافت کا انتظام کیا جاتا ہے وہ بھی وقت معلنہ پر ہوجاتا ہے تو کیوں اسی طرح مغرب کے فوری بعد نکاح اور ولیمہ کی تقاریب میں مہمانوں کی تواضع کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز نہیں کی جاتی!یہ تاثر کسی ایک شہری کا نہیں بلکہ کئی شہریوں کا ہے اور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مصروف ترین اوقات میں سے وقت نکال کر تقاریب میں وقت پر شرکت کرنے والوں کو انتظار کی زحمت اٹھانے سے بچانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ داعی دعوت ناموں میں واضح طور پر اوقات کار کا اعلان کرتے ہوئے نہ صرف اپنے وقت کو بچائے بلکہ جو لوگ ان تقاریب میں شرکت کرنے والے ہیں ان کے وقت کی حفاظت بھی کرے۔ تقاریب کے انعقاد میں ہونے والی بے ترتیبی صرف شرکاء کے لئے تکلیف کا باعث نہیں بن رہی ہے بلکہ داعیان کیلئے بھی یہ امر تکلیف دہ ثابت ہورہا ہے۔حیدرآباد ی مہمان نوازی کا دنیا بھر میں اعتراف کیا جاتا ہے لیکن مہمان نوازی کے نام پر اگر شریعت کے احکام کی مخالفت ہونے لگے تو اس کا وبال سب پر ہوگااس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ صبح کی بیداری اور رات کو جلد سونے کی تاکید کے علاوہ شریعت نے مسلمانوں کے لئے جو نظام زندگی دیا ہے اس کے خلاف عمل کرنا بھی احکام شرعی کی مخالفت کے مترادف ہے۔تقاریب میں اسراف ہی غیرشرعی عمل نہیں ہے بلکہ تقاریب میں وقت کو ضائع کرنے کا عمل بھی شریعت کے احکام کی مخالفت کے مترادف ہے اسی لئے وقت ضائع کرنے اور صبح کی بیداری میں خلل پیدا کرنے والے اعمال سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے ۔شہر میں کئی لوگ رات دیر گئے تک چلنے والے ان تقاریب کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن انہیں بھی یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ کس طرح سے ان تقاریب کو وقت کے دائرہ میں لایا جائے کیونکہ بائیکاٹ مسئلہ کا حل نہیں ہے اسی لئے وقت کی پابندی کو یقینی بنایا جائے۔