شادی ، ولیمہ میں فضول خرچی اور اسراف

   

شادی ، قانونِ فطرت ہے ، انبیاء کرام کی سنت ہے ، تسکین نفس کا حلال طریقہ ہے ، افزائش نسل کا ذریعہ ہے ، انسانی معاشرہ کی بنیاد ہے ، پیار و محبت ، اُلفت و انست کی عمدہ مثال ہے ، خود کے پاؤں پر کھڑے ہونے ، ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانے اور نیا گھر آباد کرنے اور خاندان بڑھانے کی علامت ہے ۔ ایک نئی زندگی کی شروعات ہے ، اس لئے شادی بیاہ کے موقعہ پر عاقد عاقدہ ، ماں باپ ، بھائی بہن ، عزیز و اقارب دوست و احباب کا خوش و خرم ہونا فطری بات ہے ۔ شادی بیاہ کے موقعہ پر فرط مسرت کااظہار کرنا انسانی طبیعت میں داخل ہے ، اس کو روکا نہیں جاسکتا اور شرعی اعتبار سے بھی شادی بیاہ کے موقعہ پر اظہار خوشی کرنا ، تحفہ تحائف دینا ، پکوان کرنا ، عزیز و اقارب دوست و احباب کے ساتھ خوشی منانا مطلوب ہے ۔ نکاح کے اعلان کا حکم ہے ۔ شرعی حدود میں مقامی طور طریقہ کے مطابق اظہار خوشی کی اجازت ہے ۔ دعوت ولیمہ کا اہتمام کرنا از روئے شرع مسنون قرار دیا گیا ہے۔ نیز دعوت ولیمہ میں شرکت نہ کرنے کو پسند نہیں کیا گیا ۔دوسرے کی خوشی میں شریک ہونا ، دعاء خیر کرنا ، مبارکبادی کے تبادلے کی ترغیب دی گئی ۔ تاہم انسانی فطرت میں غلو و زیادتی ہے ، حدود کو تجاوز کرنا ہے ، سرکشی و عناد ہے ، غرور و تکبر اور فخر و مباھات ہے ، اظہار برتری اور دوسرے کی تحقیر و اہانت کرنا ہے ۔ پر خدائے ذوالجلال کا شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں دین اسلام جیسی عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا اور تاقیام قیامت ساری انسانیت کی رشد و ہدایت کے لئے نبی آخرالزماںصلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کو مبعوث فرمایا ۔ آپ ؐ نے انسانیت کو سیدھی راہ بتائی ، اچھائی اور برائی کی تمیز کرائی ، عدل و اعتدال ، میانہ روی کا سبق پڑھایا ، نہ بخالت کو پسند کیا اور نہ فضول خرچی کو روا رکھا ۔ دین اور دنیا کے ہر معاملہ میں اقتضاء فطرت کو ملحوظ رکھا اور درمیانہ روش کی تعلیم دی۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : یہ دین فی الواقعی آسان ہے اور ہرگز کسی نے دین میں شدت اختیار نہیں کی مگر وہ مغلوب ہوگیا ۔ پس تم میانہ روی اختیار کرو ایک دوسرے کے قریب ہوجاؤ ، خوشخبری دیا کرو (البخاری) ایک روایت میں ہے : میانہ روی ، میانہ روی کو اختیار کرو تم منزل مقصود کو پہنچ جاؤ گے ۔ ( البخاری)
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے ارشاد فرمایا : وہ کام کرو جس کی تم طاقت رکھتے ہو ، کیونکہ اﷲ تعالیٰ ہرگز اُکتا نہیں جاتا یہاں تک کہ تم خود اُکتا جاتے ہو اور اﷲ کے نزدیک بہترین عمل وہ ہے جس پر آدمی ہمیشگی اختیار کرتا ہے اگرچہ وہ تھوڑا ہو ۔ ( البخاری) اس روایت سے واضح ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمکو وہ کام کرنے کا حکم دیا ہے جو ہمارے بس میں ہے اور جو ہماری استطاعت اور قدرت سے باہر ہے اس کو اپنے اوپر بلاوجہہ لازم کرلینے کو قطعاً پسند نہیں فرمایا ۔
حضرت حسن بصریؒ کا قول ہے : دین اسلام کی بنیاد اعتدال اور میانہ روی پر ہے ، پس شیطان دین میں غلو یا کوتاہی دو طریقوں سے داخل ہوتا ہے پس افراط و تفریط اور غلو و کوتاہی دونوں دوزخ کی آگ کے راستے ہیں۔
ابن عائشہ سے منقول ہے : اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو کسی چیز کا حکم نہیں فرمایا مگر اس میں شیطان کیلئے دو جملے پائے جاتے ہیں یا تو غلو و مبالغہ کے ذریعہ یا اس میں کمی و کوتاہی کے ذریعہ ۔ پس وہ غلو یا کوتاہی جس کسی میں کسی ایک میں کامیاب ہوئی تو اسی پر وہ قناعت کرلیتا ہے ۔ لہذا شریعت اسلامی میں نہ غلو و مبالغہ کی اجازت ہے اور نہ ہی تنقیص و کوتاہی کی۔ دونوں ازروئے شرع اور ازروئے عقل و منطق مذموم و قبیح ہیں۔ بطور خاص شریعت مطہرہ میں اسراف اور فضول خرچی کی سخت وعیدیں آئی ہیں۔
ارشاد الٰہی ہے : تم رشتہ دار ، غریب اور مسافر کا حق ادا کرو ، اور ذرا بھی اسراف مت کرو ، بلاشبہ اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے ۔ ( الاسراء : ۲۶۔۲۷)
اس آیت مبارکہ میں جہاں اسراف اور فضول خرچ سے منع کیا گیا وہیں رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے ، غرباء و مساکین کا خیال رکھنے اور پردیسی و اجنبی مسافرین کی مدد کرنے کی تلقین کی گئی اور ساتھ میں یہ نکتہ بھی واضح کردیا گیا کہ مال کو ضائع کرنا اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری ہے اور ناشکری کرنے والے شیطان کے بھائی اور مددگار ہیں۔
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے : کھاؤ ، صدقہ کیا کرو اور پہنو اسراف اور تکبر کے بغیر (نسائی) بخاری و مسلم کی روایت میں : یقیناً اﷲ سبحانہ و تعالیٰ تمہارے لئے تین چیزوں کو ناپسند کرتا ہے (۱) قیل و قال
(۲) کثرت سے سوال کرنا (۳) مال کو ضائع کرنا ۔
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے اسراف کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : جس نے ایک درھم کو غلط مقام میں خرچ کیا تو وہ اسراف ہے ۔
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کی تعریف میں فرماتا ہے : وہ وہ بندے ہیں جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ وہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخالت کرتے ہیں بلکہ ان کا خرچ کرنا میانہ روی کا ہوتا ہے۔ ( سورۃ الفرقان: ۶۷)
مندرجہ بالا سطور کے مطابق شادی بیاہ کے موقعہ پر شرعی حدود میں اظہارخوشی کی اجازت ہے تاہم اظہارخوشی میں اسراف و فضول خرچی کرنا زیب و زینت پر ہزاروں لاکھوں روپئے ضائع کرنا ، بڑے بڑے شادی خانے لیکر ہزارہا افراد کو دعوت دینا اور متنوع و ہمہ اقسام کے کھانے بنانا اور اس پر فخر و مباھات کرنا ، اس کو اپنی حیثیت اور وقار کا مسئلہ بنانا ، لڑکی والوں کو زیربار کرنا ، دوسروں کی شادی بیاہ سے تقابل کرنا ، بے جا رسوم و رواج پر اوقات کو ضائع کرنا ، شادی بیاہ کے موقعہ پر گانا بجانا ، پیشہ ور خواتین کے ذریعہ رقص و سرور کی محفلیں سجانا ، عورتوں مردوں کا باہم ملنا ، نوجوان لڑکے لڑکیوں کا مذاق و دل لگی کرنا ، آتش بازی اور پٹاخوں میں پیسوں کو برباد کرنا ، غیرضروری لائٹنگ کرانا، خوشنمائی اور دکھاوے کے لئے مہنگے سے مہنگے اسٹیج بنانا ، جھوٹی شان میں قرض کے بوجھ کو اُٹھانا ، قرض حسنہ نہ ملے تو سود پر قرض کو لینا ۔ دو دن کی خوشی کیلئے سالہا سال قرض کی ادائیگی میں پریشان ہونا اور دوسروں کو پریشان کرنا ۔ کیا یہ سب ایک مسلمان کو زیب دیتا ہے ؟ کیا یہ اُمور ایک نئی زندگی کے شروعات میں خیر و برکت کا باعث بن سکتی ہیں؟ دُلہا ، دلہن اور ان کے مانباپ ، بھائی بہن سنجیدگی سے غور کریں کہ کیا یہ اعمال اﷲ تعالیٰ کو پسند ہیں؟ کیا ایسی خوشی کے ذریعہ ہمارے آقا محمد عربی صلی اﷲ علیہ و سلم خوش ہوں گے ؟ ہم میں اور غیرقوم میں فرق یہی ہے کہ دوسری قومیں اپنی خوشی کے لئے دنیا کی تمام حدود کو پھلانگ دیتی ہیں لیکن ہم مسلمان ہر معاملے میں اﷲ اور اس کے رسول کی رضا اور تعلیمات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے : ’’کھاؤ ، پیو اور اسراف مت کرو ، اﷲ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ۔ ( سورۃ الاعراف :