شادی کے متعلق ملالہ کے ریمارس پاکستانی شہروں اور سیاست دانوں میں خوف کا سبب بن رہا ہے

,

   

اسلام آباد۔پاکستان کے نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے حالیہ دنوں میں آیا وہ شادی کریں گی کے متعلق خدشات ظاہر کرنے کے بعد ن کے ریمارکس نیح پاکستان میں سکتہ طاری کردیاہے‘ وہیں شہری او رسیاسی قائدین ان کے اس ریمارک کو شادی کے اداروں کے لئے ایک خطرے کے طور پر دیکھ رہے ہیں جہاں پر25سال سے زائد عمر کی 86فیصد خواتین شادی شدہ ہیں۔

ووگ کے ساتھ ایک انٹرویو میں جب شادی کے متعلق پوچھا گیاتو ملالہ نے کہا کہ”مجھے اب بھی سمجھ نہیں آرہا ہے کہ لوگ شادی کرنا کیوں چاہتے ہیں۔

آگر آپ کوآپ کی زندگی میں ایک فرد چاہئے تو شادی کے پیپرس پر اس کے لئے دستخط کیوں کرنا ہے‘ کیونکہ ایک پارٹنر شپ کے لئے نہیں کیاجاسکتا ہے؟“۔

ملالہ کے بیان کو پاکستان میں متعدد مذہبی اور سیاسی قائدین بہتر نہیں سمجھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی مذہب میں لائف پارٹنر شپ کی اجازت نہیں ہے۔

پاکستان کے خیبر پختون میں لکی ماروات ضلع ایک مذہبی لیڈر کو نوبل انعام یافتہ ملالہ کے شادی پر تبصرے کے پیش دھمکانے او رلوگوں کو تشدد کے لئے اکسانے کے ایک معاملے میں گرفتار کرلیاگیاہے۔

سارہ خان نے واشنگٹن پوسٹ کے لئے لکھا ہے کہ پاکستان کے اندر شادی میں طریقے کار میں غیرمساوی ڈھانچہ کی تبدیلی کے لئے جدوجہدکی ایک طویل تاریخ ہے اور مساوات کی اس کوشش کے برعکس ایسا کرنے والے کو ”مغربی“ اور روایتی اقدار کے لئے خطرہ مانا جاتا ہے۔

ملالہ کے حالیہ انٹرویو پر شدید ردعمل بشمول موت کی دھمکیاں بڑے پیمانے پر ’ملالہ سے نفرت‘ کا ایک حصہ ہے‘ جہاں پر عالم نسواں ایک کھول کربات کرنے والی اور ایک نوجوان عور ت کی کامیابی پر ناراض دیکھائی دے رہے ہیں اور مغربی میڈیا میں ایک ’لڑکی کی طاقت‘ کے نشان کے طور پر اس کی نمائندگی کو اس طرح پاکستان میں اس کو پولرائزنگ شخصیت بنایاجارہا ہے۔

یہ ردعمل پاکستان میں شادی کے استحکام کے لئے سمجھے جانے والے خطرے کے آس پاسم ایک بلند سیاسی جنون کی لہر ہے۔

پچھلے میں ایک عجیب اقدام میں پاکستان کے ایک قانون ساز نے ایسا قانون بنانے کی مانگ کی جس میں اٹھارہ سال کی عمر کے ہوتے ہیں والدین کے لئے اپنے بچوں کی شادی لازمی ہوجائے۔

اس مسودہ میں کہاگیاہے کہ 18سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد ایک بالغ کی شادی کرنے میں ناکام والدین ”ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے پاس شادی میں تاخیر کی وجوہات کودرست ٹہراتے ہوئے ایک حلف نامہ داخل کریں“اور اس میں مزید کہاگیاہے کہ اگر وہ حلف نامہ داخل کرنے میں بھی ناکام ہوتے ہیں فی کس 500روپئے ادا کریں۔

اس بل کی وسیع پیمانے پر سرزنش کی گئی ہے۔ پچھلے سال پاکستان کے و زیراعظم عمران خان نے بڑھتی شرح طلاق کے متعلق تشویش کا اظہار کیا اور اس کی وجہہ غیرملکی میڈیاکی بڑھتی اجارہ داری کو قراردیا تھا۔

واشنگٹن پوسٹ کے بموجب طلاق کی برھتی شرح کا خوف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے۔ ترکی میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے صدر طیب رجب اردغان کا ”ٹریڈ مارک“ خاندانی اقدار کے متعلق بیان بازی بن گیاہے۔

ریاست متحدہ ہائے امریکہ میں خواتین کی خودکشی کی شرح میں 8سے 16فیصد کی کمی ہے اور ساتھیوں کی جانب سے خواتین کے قتل میں یو ایس اے میں 10فیصد کی گرواٹ ائی ہے جہاں پر یکطرفہ طلاق کا قانون منظور کیاگیاہے‘ جہاں پر اگر ایک فرد چاہتے تو شادی سے باہر آسکتا ہے‘ یہاں تک کہ اگر دوسری نہیں بھی چاہتا ہے تو یہ کام ایک فرد کرلے سکتا ہے‘ ایسی منظوری اس قانون کے تحت دی گئی ہے۔

پاکستان میں ایک طلاق شدہ عورت کے لئے کافی مشکلات در پیش ہیں اور ملالہ کے بیان پر ردعمل خواتین پر عائد سماجی تحدیدات کی طرف اشارہ کرتا ہے جوشادی پر سوال اٹھانا چاہتے ہیں۔

اس کے علاوہ شادی شدہ خواتین معاشی طور پر کمزور رہتی ہیں کیونکہ پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جس کے ذریعہ گذارے کے لئے اخراجات کی ادائیگی یا ازدواجی جائیداد کی تقسیم میں انہیں کوئی حصہ ملتا ہے۔

عام اسکالرس ماناہے کہ پاکستان میں ’روایتی بمقابلہ مغربی‘ سیاسی قائدین کے ایک ہتھیار کے علاوہ کچھ نہیں ہے جس کا استعمال وہ پاکستان کی خواتین کو نظر انداز کرتے ہیں اور احتساب سے بچنے کاکام کرتے ہیں۔