شاعرِمشرق : شادؔ عظیم آبادی

   

ڈاکٹر امیر علی

خان بہادر سید علی محمد شاد عظیم آبادی کی ولادت باسعادت 1846ء کو محلہ پورب دروازہ عظیم آباد (پٹنہ) بہار میں اپنے ننھیال میں ہوئی۔ آپ نے جس زمانے میں آنکھ کھولی اُس وقت یہ علاقہ زرخیز اور علم و ادب و تہذیب کا گہوارہ تھا۔ یہاں کی علم دوستی اور مہمان نوازی مثالی تھی۔ یہاں پر لوگ دور دراز علاقوں سے آکر آباد ہوئے اور پانی پت و دِلی کے امراء، علماء، شعراء اور اہل کمال بھی یہاں موجود تھے۔ عہد قدیم ہی سے پٹنہ، بہار، شعراء، علماء اور اہل فن کا ملجا و ماوا تھا۔ شادؔ کے اجداد بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ خودداری، زہد و تقویٰ، اعلیٰ اخلاق حسنہ، مروت و ہمدردی ان کے خاص جوہر تھے اور علاقے کے لوگ ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ یہاں ان کی اولاد خوب پھلی پھولی اور ادب و شاعری میں بڑا نام کمایا۔ غدر 1857ء کے بعد یہاں پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا قبضہ ہوگیا اور ملک پر ملکہ وکٹوریہ کی حکومت قائم ہوگئی اور یہاں کی تہذیبی اور علمی روایات کو سخت دھکا لگا۔ شادؔ کا ننھیال اور دادھیال بڑا معزز اور صاحب ثروت خاندان تھا۔ گھر کا ماحول مذہبی تھا اور گھر کے سبھی لوگ علم و ادب سے بہرہ آور تھے۔ دونوں ہی خاندان بڑے معزز اور بڑے مہمان نواز تھے۔ ان کے گھر پر رات دیر گئے تک علمی، ادبی اور شعری محفلوں کا اہتمام ہوا کرتا تھا۔ شادؔ بھی ان اہل فن کی سرپرستی میں تربیت پاتے رہے۔ شادؔ کے والد سید عباس مرزا، نانا نواب مہدی علی خاں اور دادا سید تفضل حسین یہ سب بھی ذی مرتبت اور صاحب ثروت شخصیات کے مالک تھے اور ان کا شمار عمائدین شہر میں ہوتا تھا۔ شادؔ کے جدِ اعلیٰ سادات حسینی الحسنی تھے اور وہ خود بھی حضرت امام زین العابدین کی اولاد میں سے تھے۔ اس خاندان کے دو بزرگ اپنے وقت کے بادشاہ بھی گزرے ہیں۔ ان میں سید حسین فیروزی (شیراز) کے اور کبیرالمشائخ (ہرات) کے بادشاہ گزرے ہیں۔ ’’شاد کی تصنیف‘‘ تذکرۃ الاسلاف میں اس کا ذکر درج ہے۔ ان حکمرانوں نے عوام کے دلوں پر کامیاب حکمرانی کی اور بڑا نام کمایا۔ شادؔ ان خوش نصیب انسانوں میں تھے، جنہیں شاندار علمی، ادبی اور تہذیبی وراثت ورثے میں ملی تھی، مگر صرف خاندانی وراثت، کروفر اور دبدبہ کسی کو بلندیوں تک نہیں پہنچاتا بلکہ انسان کے کردار، محنت، حرکت ،عمل اور خدا کا فضل ہی انسان کو کامیابیوں تک لے جاتا ہے۔ قدرت بھی ہمیشہ شادؔ پر مہربان رہی، مگر قدرت بھی اپنے خزانے کسی پر یوں ہی نہیں لٹاتی۔ ساحل پر بیٹھ کر طوفان کا نظارہ کرنے والوں کو قدرت کے خزانے ہاتھ نہیں آتے۔ ’’شاعر اور نیک دل انسان پیدا نہیں کئے جاتے بلکہ پیدا ہوجاتے ہیں، جن میں شادؔ کا شمار کیا جاسکتا ہے۔

شادؔ عظیم آبادی نے اپنی تعلیم سید فرحت حسین سے حاصل کی ۔ علم دین مشہور عالم مولوی سید مہدی شاہ اور علم طب کی تعلیم شیخ محمد علی لکھنؤی سے حاصل کی۔ حدیث، فقہ، منطق، اور دیگر رائج الوقت علوم بھی حاصل کیں اور اپنی محنت، جانفشانی، ذہانت اور ذکاوت سے بہت جلد کامل ادیب بن گئے اور کم عمر ہی سے شعر بھی کہنے لگے۔ گھر کے سبھی لوگ شعر و شاعری اور ادب کا اعلیٰ مزاح رکھتے تھے اور شادؔ کے حقیقی بھائی سید امیر حسن خان صاحب استعداد اور اردو کے ہر گو شاعر تھے اور ایجادؔ تخلص فرماتے تھے۔ نو (9) سال کی عمر سے ہی شادؔ نے شاعری کے میدان میں قدم رکھا اور مشاعروں اور ادبی محفلوں میں شرکت کرنے لگے۔ مگر شاد کے والدین اعلیٰ مذہبی تعلیم کے لئے انہیں عراق بھیجنا چاہتے تھے۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ شادؔ عراق نہ جاسکے اور شعر و شاعری اور ادبی سرگرمیوں میں سرگرم رہے اور اپنے وقت کے نامور ادیب اور شاعر بن گئے۔ آخرکار سید اُلفت حسین فریادؔ کے تلامذہ کی فہرست میں آپ کا نام درج ہوگیا اور شاعری میں استاذ نے ہی ان کا تخلص شادؔ تجویز کیا یہاں تک کہ شادؔ عظیم آبادی کے نام سے دنیائے ادب میں شہرت پائی۔ شادؔ نے بڑی ہی عمدہ اور موثر غزلیں کہی ہیں۔ ان کی ایک مشہور غزل کے چند اشعار اس طرح ہیں جن میں فصاحت و بلاغت موجود ہے:
نہ بے چینی نہ بے تابی کوئی تربت کے سونے میں
بڑے آرام سے چپکے پڑے ہیں ایک کونے میں
کہاں پھیکا ہے لاکر روح نے اس جسم خاکی کو
یہی ہوتا ہے، طاقت سے زیادہ بوجھ ڈھونے میں
اس کے علاوہ شادؔ کی ایک غزل زبان خاص و عام ہے۔ جس میں فلسفہ حیات، اخلاقی پند و نصیحت اور فکر و فلسفہ موجود ہے۔ چند اشعار اس طرح ہیں:
مکر رہا مصفا جس کو یہ دونوں ہی یکساں ہیں
حقیقت میں وہی میخوار ہے پینا اسی کا ہے
یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کے خود اُٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
کدورت سے دل اپنا پاک رکھ ائے شادؔ پیری میں
کہ جس کو منہ دکھانا ہے یہ آئینہ اسی کا ہے
شادؔ کی غزلوں میں ایسے بے شمار اشعار ہیں جن میں معنویت اور معرفت نمایاں ہے:

اب بھی اک عمر میں جینے کا نہ انداز آیا
زندگی چھوڑ دے پیچھا مرا میں باز آیا
اس خرابے میں تو ہم دونوں ہیں یکساں ساقی
ہم کو پینے تجھے دینے کا نہ انداز آیا
شادؔ ازل سے ہی عشق کا جذبہ اپنے دل میں لے کر پیدا ہوئے تھے۔ وہ سانس بھی لیتے تھے تو ان کو یہ احساس ہوتا تھا کہ عشق کی چھڑی ان کے قلب و جگر میں پیوست ہورہی ہے۔ شادؔ کے ہاں عشق کی بے انتہا شدت ہے لیکن ان کا محبوب ہمیشہ نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ شادؔ کے عشق میں سادگی، تسلیم و رضا اور ادب و احترام ہے، کبھی بے ادب ہوتے ہیں اور نہ گستاخ۔ والہانہ جذبات، لطافت، زبان و بیان، نزاکت الفاظ شادؔ کا مخصوص انفرادی رنگ ہے۔ ان کی غزلوں میں تصوف، تفکر، درد تاثیر اور مضمون آفرینی پائی جاتی ہے۔ اس کا نمونہ یہ ہے:
ہادی ہوں میں کام ہے ہدایت میرا
دم بھرتے ہیں ارباب بلاغت میرا
میں شہر میں رہتا ہوں سند ہیں میرے شعر
منہ چومتی ہے آپ فصاحت میرا
مضمون مرے دل میں بے طلب آتے ہیں
قدسی طبق نور میں دبے جاتے ہیں
کچھ اور نہیں علم مجھے اس کے سواء
کہتا ہوں وہی جو مجھ سے کہلواتے ہیں
شادؔ کی غزلوں میں اظہار کی توانائی اور رعنائی بھی ہے۔ اس کے علاوہ زندگی بے ثباتی، فنا، پذیری، وجود کا کرب، اختیار، آزادی اور بقاء کی خواہش، غم جاناں اور غم دوراں کا حسین امتزاج موجود ہے جو میرؔ اور غالب ؔ کا بھی موضوع ہیں چنانچہ شادؔ فرماتے ہیں:

تمناؤں میں اُلجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کر بہلایا گیا ہوں
دلِ مضطر سے پوچھ آئے رونق بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں
لحد میں کیوں نہ جاوں منہ چھپائے
بھری محفل سے اُٹھوایا گیا ہوں
شادؔ عظیم آبادی نے طویل عمر پائی۔ آپ کے دوستوں، شاگردوں اور ان کے چاہنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ شادؔ نے اپنی ساری زندگی اُردو زبان و ادب اور شاعری کو پروان چڑھانے میں گزار دی۔ آخری ایام حیات میں آپ مسلسل بیمار رہنے لگے۔ دوا اور دُعا نے اپنا اثر نہیں دکھایا اور آخر غربت میں ’’مینائے شاد‘‘ توڑ ڈالی۔ 8 جنوری 1927ء کو 81 سال کی عمر میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ اور آپ کی وفات پر ہر مذہب و ملت کے لوگوں نے افسوس کیا اور کثیر تعداد میں لوگ آپ کی تجہیز و تکفین میں شریک ہوئے۔ آپ کا جسد خاکی شاد منزل ، حاجی گنج ، پٹنہ، بہار کے احاطہ میں سپرد لحد کردیا گیا۔ آپ کے انتقال کے وقت آپ کا ہی یہ شعر آپ کی زبان پر جاری تھا:
آخر ہے عمر، ضیق میں ہے دم بھی جان بھی
مردانہ باش ختم ہے یہ امتحان بھی