شامی تیل کی چوری

   

ایم کے کمار
شام میں اگر دیکھا جائے تو امریکہ قابض ہوچکا ہے اور اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ قبضہ جاری رہے گا۔ جہاں تک امریکہ کا سوال ہے اس کے بارے میں مشہور ہیکہ وہ ان ملکوں ان علاقوں کا رخ کرتا ہے جہاں اس کے لئے کاروبار کے بہتر مواقع دستیاب ہوتے ہیں اور جہاں اس کے مفادات کی نگہبانی بہتر انداز میں ہوتی ہو۔ اس ضمن میں جارج ڈبلیو بش کے دور صدارت میں نائب صدر رہے ڈگ چینی کا ایک قول بہت مشہور ہوا تھا، وہ قول کچھ یوں تھا خدا جمہوری طور پر منتخب امریکی حلیف حکومتوں یا ملکوں میں تیل اور گیس رکھنا مناسب نہیں سمجھتا، اس لئے بعض مرتبہ ہمیں ان مقامات پر کام کرنا پڑتا ہے جہاں حالات اور حکومتیں ہمارے موافق نہیں ہوتے۔ ایسے مقامات پر جانے کا ہم انتخاب کرتے ہیں جہاں عام طور پر کوئی دوسرا نہیں جاتا اور ہم ہر اس مقام پر اس ملک اور جگہ جاتے ہیں جہاں بزنس ہمارے مفادات ہو۔ شام میں اگر دیکھا جائے تو آئی ایس آئی ایس ایران، روس وغیرہ کی موجودگی کا بہانہ بناکر امریکہ بھی داخل ہوا اور شام کے دور افتادہ علاقہ میں اس نے اپنا فضائی اڈہ بھی قائم کرلیا۔ اب تو اس بات کی بھی خبریں آنے لگی ہیں کہ امریکہ شامی مسروقہ تیل سے بھرے ٹینکرس عراق میں واقع اپنے فضائی اڈوں کو پہنچا رہا ہے چنانچہ عینی شاہدین کے بیانات کے مطابق امریکی فورسس نے کم از کم 34 ٹینکروں کو عراق منتقل کیا جو مسروقہ شامی تیل سے بھرے ہوئے تھے اور ان ٹینکرس کی غیر قانونی طور پر منتقلی عمل میں آئی۔ شامی وزارت خارجہ کے مطابق تیل کی چوری اور دوسری امریکی کارروائیوں کے نتیجہ میں گزشتہ سال اگست تک شام کو 107 ارب ڈالرس کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ کچھ دن قبل اعلیٰ امریکی فوجی عہدیدار جنرل مارک ملے چیرمین آف دی جائنٹ چیف آف اسٹاف نے شمال مشرقی شام کے ایک دور افتادہ علاقہ میں واقع امریکی فضائی اڈہ کا غیر معلنہ دورہ کیا۔ اس دورہ کا مقصد تیل سے کہیں زیادہ کچھ اور تھا، بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ شام میں داعش کے دوبارہ سرگرم ہونے کو روکنے کی خاطر مارک ملے کی شام میں آمد ہوئی تاکہ اس مقصد کے حصول کیلئے کی جارہی کوششوں کا جائزہ لیا جاسکے۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی جائزہ لیا جاسکے کہ ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے ڈرونس حملوں سے امریکی فورس کتنی محفوظ ہے اس کی وجہ بھی ہے اور وہ یہ ہیکہ امریکہ کو اچھی طرح انداز ہوگیا ہیکہ ایرانی ساختہ ڈرونس شام میں اس کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ شام میں امریکی فورس کی جملہ تعداد تقریباً 900 بتائی جاتی ہے اور دوسری اہم بات یہ ہیکہ شام میں یہ تاریخ رہی ہیکہ آئی ایس آئی ایس (isis) نے کبھی بھی امریکی فورس پر حملہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس علاقائی ریاستوں یا علاقہ کے ملکوں میں یہی مشہور ہیکہ امریکہ آئی ایس آئی ایس کی نہ صرف سرپرستی کرتا ہے بلکہ عراق۔ شام سرحد پر واقع الطنف علاقہ میں امریکی فضائی اڈہ میں ملیشیا گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کو تربیت بھی فراہم کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس گروپ کے شامی صحرائی علاقہ میں کی جانے والی کارروائی کی لاجسٹک سپورٹ بھی کرتا ہے ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ مارک ملے نے کرد زیر قیادت سیرین ڈیموکریٹک فورس کے کمانڈروں سے ملاقات بھی کی ہے یا نہیں۔ یہ فورسس شمال مشرقی شام میں امریکی فورس کی اصل حلیف ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وہ شام میں امریکی مداخلت کو ختم کرنے کے لئے ایک قانون سازی کے پس منظر میں اور وائٹ ہاوس کی ہدایت پر آئے۔