شیخ المعقولات مولانا غلام احمد علیہ الرحمہ

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی
حضرت مولانا غلام احمد علیہ الرحمہ، جامعہ نظامیہ کے شیخ المعقولات، ایک جید عالم دین اور بلند پایہ استاد تھے۔ ۱۳؍ربیع الثانی ۱۳۴۳؁ھ مطابق ۱۱؍اکٹوبر ۱۹۲۴ء؁ کو موضع ہنسگل ضلع نظام آباد کے زمیندار اور اہل خدمات شرعیہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد ماجد کا نام غلام محی الدین اور دادا کا نام شیخ میراں تھا۔ جامعہ نظامیہ میں درس و تعلیم پاتے ہوئے تفسیر سے مولوی کامل کا امتحان کامیاب کئے۔ شروع سے آخر تک وہ ایک اقامتی طالب علم تھے۔ ایسے علماء و اساتذہ سے اکتساب علم و ادب اور فیضیاب ہوئے جو علوم و فنون متداولہ میں یدطولی رکھتے تھے اور برسر روزگار تھے۔
محکمۂ تعلیمات میں تقرر کے قوی امکانات ہی تھے کہ جامعہ نظامیہ میں بحیثیت استاذ خدمت کا یکم جون ۱۹۴۵ء؁ کو تقرر ہوا۔ درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔ نائب شیخ المعقولات ہوئے۔ پھر امیر جامعہ نظامیہ حضرت حکیم محمد حسین علیہ الرحمہ کے زمانہ میں ۱۹۷۰ء؁ میں شیخ المعقولات بنائے گئے۔ آخری عمر تک وہ اس منصب پر فائز رہے۔ حضرت شیخ المعقولات علیہ الرحمہ نے اپنی پوری زندگی درس و تدریس میں گذار دی۔ کم و بیش چالیس سال جامعہ نظامیہ میں تدریسی خدمات بحسن و خوبی انجام دیئے۔
حضرت شیخ المعقولات علیہ الرحمہ کے اساتذہ اجلہ میں مولانا مفتی سید محمد مخدوم حسینی، مولانا مفتی سید محمود کان اللہ لہ، مولانا ابوالوفاء افغانی، مولانا محمد قاسم، مولانا سید شاہ محمد شطاری، مولانا محمد مخدوم بیگ، مولانا سید ابراہیم ادیب، مولانا حکیم محمد حسین، مولانا حاجی محمد منیرالدین، مولانا مفتی محمد عبدالحمید اور فارسی کے اساتذہ مولانا شبیر علی و مولانا سید ظہور الدین (رحمہم اللہ) تھے۔
حضرت شیخ المعقولات علیہ الرحمہ کو علوم و فنون کی تدریس میں مہارت تھی وہ ذوق تدریس بھی رکھتے تھے۔ اسلوب درس اور طرز تفہیم بڑا عمدہ اور ماہرانہ اور موثر و جاذب بھی تھا۔ درس کے درمیان تمام متعلقہ چیزوں کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرتے۔ معانی و مطالب کو ذہن نشین کراتے۔ وہ کافی مطالعہ اور تیاری سے درس دیا کرتے تھے۔ غبی طالب علم بھی آپ کے درس کو سمجھ جاتا۔حضرت شیخ المعقولات علیہ الرحمہ معقول و منقول میں وسیع النظر تھے۔ وہ منکسر المزاج اور متواضع عالم و استاذ تھے۔ تلنگانہ کی تاریخی مکہ مسجد میں نماز جمعہ ادا فرماتے۔ بیرون ملک سفر اور حج و زیارت نہ کرسکے۔ صبح دس بجے سے شام چار بجے تک وہ مصروف درس رہتے تھے۔ اس کے بعد وہ اقامت خانہ کے ایک حجرہ میں قدرے استراحت کے بعد وہ جامع مسجد چوک جاتے، جہاں صحن مسجد کا حجرہ، جس میں اور علماء (مولانا مفتی رحیم الدین، مولانا حاجی محمد منیرالدین، مولانا مفتی محمد عبدالحمید رحمہم اللہ) تشریف فرما ہوتے، حضرت شیخ المعقولات علیہ الرحمہ بھی اس مجلس میں بیٹھ جاتے۔ نماز عصر، مغرب اور عشاء پڑھنے کے بعد وہ جامعہ نظامیہ واپس ہوجاتے۔ درسی کتب کا مطالعہ فرماتے نماز فجر و ظہر جامعہ کی مسجد میں ادا فرماتے تھے۔
حضرت شیخ المعقولات علیہ الرحمہ تقرر کے بعد سے جامعہ نظامیہ کے اقامت خانہ کے ایک حجرہ میں تقریباً ۳۷ سال قیام فرمائے۔ مطبخ کے طعام پر وہ اکتفا اور قناعت فرماتے۔ اپنی تنخواہ سے ہر ماہ وہ جامعہ کو فیس خوراک ادا کردیتے تھے۔ وفات سے صرف دو سال قبل اپنے بڑے صاحبزادے (مفکراسلام مولانا) مفتی خلیل احمد (موجودہ شیخ الجامعہ، جامعہ نظامیہ) کے گھر منتقل ہوئے۔ حضرت ممدوح علیہ الرحمہ اپنے آپ میں ایک خاموش زندگی تھی۔ خوبیوں، بلند اخلاق و اوصاف سے متصف شخصیت تھے۔ کسی کے ساتھ کبھی بھی بحث و تکرار نہیں کرتے۔ پکے سنی حنفی تھے۔ دینی و مذہبی اختلافات اور مسلکی جھگڑوں میں اُلجھتے نہیں تھے۔ شہرت، جاہ طلبی اور کسی بھی دنیوی غرض کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ ان چیزوں سے بہت دور رہتے تھے۔
حضرت شیخ المعقولات علیہ الرحمہ کے تلامذہ بے حساب ہیں۔ ان میں سے چند مخصوص کے اسماء ذکر کئے جارہے ہیں۔ مولانا حافظ سید خورشید علی، مولانا مفتی محمد عظیم الدین، مولانا سید عطاء اللہ حسینی ملتانی، مولانا حافظ عبداللہ قریشی ازہری، مولانا ابراہیم خلیل ہاشمی، مولانا حافظ سید محبوب حسین، مولانا محمد خواجہ شریف وغیرہم۔
حضرت شیخ المعقولات علیہ الرحمہ طویل القامت، کسی قدر سمین الجثہ تھے۔ لباس سادہ ہوتا سر پر کپڑے کی سلی سفید ٹوپی ہوتی۔ خاص موقع پر عمامہ بھی باندھتے تھے۔ باہر نکلتے تو عموماً شیروانی میں رہتے تھے۔ چپل استعمال کرتے تھے۔ طہارت، نظافت اور نفاست پسند تھے۔ حضرت شیخ المعقولات علیہ الرحمہ کے پانچ صاحبزادے (پہلے مولانا مفتی خلیل احمد، دوسرے شبیر احمد، تیسرے مشتاق احمد چوتھے غلام محی الدین اور پانچویں شفیق احمد) بقید حیات رہے، انکے علاوہ دو صاحبزادے اور ایک صاحبزادی کم سنی میں انتقال کرگئے۔ حضرت شیخ المعقولات علیہ الرحمہ کے دو پوترے مولوی محمدمشہود احمد اور مولوی غلام احمد افروز جامعہ نظامیہ میں بحیثیت مدرس اپنی تدریسی ذمہ داری نبھارہے ہیں۔
حضرت شیخ المعقولات علیہ الرحمہ حضرت محدث دکن ابوالحسنات اور حضرت سید شاہ قدرت اللہ قادری رحمہما اللہ تعالیٰ کے وہ بڑے عقیدت مند تھے۔ آپ جامعہ نظامیہ کے سالانہ تعطیلات میں وطن تشریف لے جاتے ،شعبان کے آخری دہے میں سال بھر کیلئے کپڑے و چپل وغیرہ خریدتے اور وطن جانے کی تیاری فرماتے۔ شوال المکرم کے پہلے دہے میں جامعہ نظامیہ واپس ہوتے۔
حضرت شیخ المعقولات علیہ الرحمہ کی وفات۲۵؍ربیع الثانی ۱۴۰۶؁ھ مطابق۷؍جنوری ۱۹۸۶؁ء کو حیدرآباد میں ہوئی۔ جامعہ نظامیہ کے احاطہ میں نماز جنازہ آپ ہی کے صاحبزادے (مفکر اسلام مولانا) مفتی خلیل احمد کی اقتداء میں ادا کی گئی۔ علماء و مشائخ کرام، اساتذہ و طلباء اور شاگردوں کی کثیر تعداد نماز جنازہ میں شریک رہی۔ دعاء مغفرت کی گئی۔ اور حضرت شاہ راجو قتال رحمۃ اللہ علیہ کے مقبرہ میں سپرد خاک کیا گیا۔