شیشہ و تیشہ

   

طالب خوندمیری
کینگرو
پولیس تھانے پہ جاکر
رات کو
اک کینگرو، نے یہ شکایت کی
مرا اکلوتا بچہ
صبح سے گم ہے
مجھے شک ہے
کسی نے میری پاکٹ مار دی ہے !!
………………………
انور ؔمسعود
کسی کو نہ دکھائے !
وقفہ گزر گیا کہ قیامت گزر گئی
دس، بیس، تیس بار مجھے دیکھنے پڑے
ٹی وی پہ رات خیر ڈرامہ جو تھا سو تھا
لیکن جو اشتہار مجھے دیکھنے پڑے!
………………………
لیڈر ؔنرملی
غزل (مزاحیہ)
سُسرے کو پٹانے میں ذرا دیر لگے گی
چیک سائن کرانے میں ذرا دیر لگے گی
اے میزباں! جب تک نہ کیوں ٹھنڈے کا چلے دور
کہ چائے کے آنے میں ذرا دیر لگے گی
مَردوں کی کیا تیاری کہیں جانا اگر ہو
البتہ زنانے میں ذرا دیر لگے گی
پیٹھ اُس کی کھجاؤں میں، کھجائے وہ میری
خود اپنی کھجانے میں ذرا دیر لگے گی
نازک ہے کلائی کہ اداؤں سے کرو قتل
تلوار اُٹھانے میں ذرا دیر لگے گی
تم باپ کمائی تو اُڑادیتے ہو یُوں میں
خود آپ کمانے میں ذرا دیر لگے گی
مسکے کے لئے آدمی بازار گیا ہے
رُوٹھوں کو منانے میں ذرا دیر لگے گی
منٹوں میں پکادے گا کہ ہے فام میں شوہر
بیگم کو پکانے میں ذرا دیر لگے گی
اک کام کرو، قد کو حریفوں کے گھٹادو
قد اپنا بڑھانے میں ذرا دیر لگے گی
لیڈرؔ کوئی اووٹی میں ہے تو کوئی گوا میں
سرکار بنانے میں ذرا دیر لگے گی
………………………
مذاق کی عادت …!!
شوہر (بیوی سے ) : تمہاری اماں کی مذاق کرنے کی عادت ابھی نہیں گئی ۔
بیوی : اب کیا نیا مذاق کرے ؟
شوہر : کل فون پر پوچھ رہے تھے ’’میری بیٹی سے شادی کرکے تم بہت خوش ہو نا …!!‘‘
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
………………………
اﷲ کا شکر ہے …!!
٭ ایک دن ہمارے دفتر کے لنچ ٹیبل پر زوردار شعر و سخن کی محفل چل رہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے ہر شخص منجھا ہوا شاعر ہے ۔ چو طرف سے ٹیبل پر اشعار کی بارش ہورہی تھی سب ہی شعر سنانے پر تلے ہوئے تھے سوائے ایک شخص کے وہ بڑے خاموش سنجیدگی سے ہر شعر انتہائی غور سے سن رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ انہیں شعر و ادب سے شغف کی حد تک دلچسپی ہے لیکن حضرت کچھ سنا نہیں رہے تھے ! ان کی اس کیفیت کو بھانپ کر ایک صاحب نے پوچھا بھئی آپ بھی کچھ شعر ویر کہتے ہیں یا نہیں ؟ کچھ سنائیے نا ۔
برجستہ کہنے لگے : ’’اﷲ کا شکر ہے میرے حالات ابھی اس قدر خراب نہیں ہوئے ہیں کہ میں شاعری کرنے لگوں ‘‘۔
زکریا سلطان۔ ریاض (سعودی عرب)
………………………
خوشی کی بات …!!
٭ مالک ( نوکر سے ) کل شادی ہے اور مجھے پتہ چلا ہے کہ تم نے شادی کے رقعے ابھی تک تقسیم نہیں کئے ۔
نوکر : جی حضور ! جب شادی میں سب مہمان تشریف لائیں اور آپ سب رقعے انھیں اپنے دستِ مبارک سے دیں تو مہمانوں کو بڑی خوشی ہوگی ۔
شعیب علی فیصل ۔ محبوب نگر
………………………
بھوک میں!
بمبئی (ممبئی) میں جوش ملیح آبادی ایک ایسے مکان میں ٹھہرے جس میں اوپر کی منزل پر ایک اداکارہ رہتی تھی، لیکن مکان کی ساخت کچھ ایسی تھی کہ انہیں دیدار نہ ہو سکتا تھا، لہذا انہوں نے یہ رباعی لکھی:
میرے کمرے کی چھت پہ اُس بُت کا مکان
جلوے کا نہیں ہے پھر بھی کوئی امکان
گویا اے جوش میں ہوں ایسا مزدور
جو بھوک میں ہو سر پہ اْٹھائے ہوئے خوان
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………