شیشہ و تیشہ

   

پاپولر میرٹھی
انتظار !
محبوب وعدہ کرکے بھی آیا نہ دوستو
کیا کیا کیا نا ہم نے یہاں اُس کے پیار میں
مرغے چرا کے لائے تھے جو چار پاپولرؔ
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
……………………………
اقبال شانہ ؔ
کیا ہو ؟
برفیلی فضا اور بڑی سرد ہوا ہو
لگتا ہے کہ ہر شخص فقط کانپ رہا ہو
جاڑے کی خنک رات ہو ، کمبل بھی پھٹا ہو
ایسے میں تری یاد بھی آجائے تو کیا ہو
……………………………
مرزا اٹکلی
مزاحیہ غزل
داؤد میاں ہمارا جانی میاں ہمارا
پاکٹ میں نوٹ ہیں تو سارا جہاں ہمارا
روشن کرے گا اک دن نام و نشاں ہمارا
ہِپّی بنا ہوا ہے بیٹاں جواں ہمارا
ٹھوکر لگی تو دیکھو اوندھا گِرا ہوا ہے
کمزور ہوگیا ہے کُچھ پہلواں ہمارا
جب سے ہُوا ہے اُن کی محفل میں آنا جانا
دشمن بنا ہوا ہے سارا جہاں ہمارا
معلوم کیا کسی کو ہوتی ہے کیا سیاست
آج اک بیاں ہمارا کل اک بیاں ہمارا
باوا کو اپنے باوا کہنا ہی یاں پڑیگا
لندن نہیں ہے مرزاؔ ہندوستاں ہمارا
…………………………
دیری کی وجہ !
٭ ایک بچہ دوڑا دوڑا پولیس اسٹیشن آیا اور بولا : انسپکٹر صاحب ! جلدی چلئے ایک چور ایک گھنٹے سے میرے والد کو پیٹ رہا ہے ۔
انسپکٹر بولا : ایک گھنٹے سے پیٹ رہا ہے تو تم اتنی دیر تک کیا تماشہ دیکھ رہے تھے ؟
بچہ بولا : نہیں ! نہیں صاحب ! اس سے پہلے میرے والد صاحب چور کو پیٹ رہے تھے ۔
جلیس محمد رباب ۔ ٹولی چوکی
…………………………
بکواس
٭ مشہور مزاح نگار شوکت تھانوی کو مولانا چراغ حسن حسرتؔ نے فون کیا اور یوں مخاطب ہوئے : ’’ شوکت ! اپنی بکواس بھیجیں ، میرا بچہ اس سے محظوظ ہونا چاہتا ہے ‘‘ ۔
دراصل شوکت تھانوی کا ایک مزاحیہ ناول ’’ بکواس ‘‘ کے نام سے چھپا تھا ، جو حسرتؔ صاحب کا بچہ پڑھنا چاہتا تھا ۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
کیا وجہ ہے ؟
ٹیچر طلبہ سے : بتاؤ بچو ! لڑکی کی شادی 18 سال بعد اور لڑکے کی 21 سال بعد کیوں شادی کی جاتی ہے ؟
ایک لڑکا : کیونکہ لڑکا عمر میں بڑا اور لڑکی چھوٹی ہونی چاہئے ۔
ایک لڑکی : نہیں بیوقوف! اس لئے نہیں ! اس کی وجہ یہ ہے کہ لڑکی کو عقل 18 سال بعد اور لڑکے کو 21 سال بعد آتی ہے !
سید سمیع ، شکیلہ ، لبنیٰ ۔ گائتری ہلز
…………………………
غصہ کا سبب !
٭ ایک صاحب اکثر دیر سے گھر آتے جس کی وجہ سے ان کی بیگم ان کو خوب ڈانٹتیں ۔ بیگم کے سامنے تو صاحب کا بس نہیں چلتا تھا ۔ دفتر آکر اپنے ماتحتوں پر خوب غصہ نکالتے ۔ اسی طرح وقت گزرتا رہا۔ ایک دن ان صاحب کے ایک خاص دوست جو خاصے بے تکلف تھے انھوں نے ان سے پوچھا : بتاؤ یار ! کیا حال ہے ؟
’’ٹھیک ہوں‘‘
کہو! زندگی کیسی گزر رہی ہے ؟
’’بس ڈانٹ ڈپٹ کے سہارے گزر رہی ہے ‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب واضح ہے ، جب گھر جاتا ہوں تو بیگم ڈانٹ دیتی ہیں اور پھر میں بھی ڈپٹ دیتا ہوں ‘‘۔ ’’اپنی بیگم کو ؟ ‘‘
’’ارے کہاں یار ! ہماری ایسی قسمت کہاں ہم تو اپنا سارا غصہ اپنے ماتحتوں کو ڈپٹ کر نکال لیتے ہیں!‘‘۔
مبشر سید ۔ چنچلگوڑہ
…………………………
غریب آدمی !
بیٹا ماں سے : ’’ امی جان ! مجھے پانچ روپئے چاہیئے، مجھے ایک غریب آدمی کو دینا ہے۔
ماں نے پوچھا : وہ آدمی کہاں ہے؟ ‘‘
بیٹے نے جواب دیا ’’ امی ! وہ گلی کے موڑ پر کھڑا آئس کریم بیچ رہا ہے۔‘‘
شیخ فہد۔رائچور
…………………………