شیشہ و تیشہ

   

حبیبؔ
سیاست !
مکتبِ ’’سیاست‘‘ کا دستور نرالا دیکھا
اُسکو سیٹ نہ ملی جس نے محنت سے کام کیا
………………………
حفیظؔ فاروقی (کریمنگری)
کیا کہوں!
آنے والے سال کہوں
بس میں ہیں سُرتال کہوں
منہ سے ٹپکتی رال کہوں
خوش ہے سُندر لال کہوں
گھاؤ دلوں کے بھردے گا
آنے والا سال کہوں
خوشیاں لیکر آئے گا
امن و اماں کا سال کہوں
خنجر جیسا چلتی ہے !
رَدِّ زباں کا سال کہوں
ایسے نہ کہنا دھوکہ تھا
ایک چُناوی جملہ تھا
نعروں میں ایک نعرہ تھا
کالے دھن پر وعدہ تھا
ہوں گے مالا مال کہوں
خوشحالی کا سال کہوں
فاروقیؔ کا سال کہوں
سُندرجی کا سال کہوں
یکجہتی کا سال کہوں
’’مانجھی جی‘‘ کا سال کہوں
اچھے دنوں کا سال کہوں
خوش ہے سندر لال کہوں
سارے جہاں پر دال کہوں
ہندوستان کا سال کہوں
اوڑھے زَرّیں شال کہوں
شاعر کا ہے سال کہوں
اُردو حسب حال کہوں
تُک بندی پر تال کہوں
…………………………
اردو میں بولو …!!
٭ بھیڑ میں اکیلی خاتون کو دیکھ کر نوجوان بولا ’’آئی لو یو اینڈ وانٹ ٹو میری یو‘‘ تو خاتون بولی بھیا میرے کو انگریزی نہیں آتی اُردو میں بولیں تو سامنے میرے شوہر جارہے ہیں میں اُن سے اس کا مطلب پوچھ لیتی ہوں ۔
یہ سُن کو وہ نوجوان گھبراگیا اور فوری بولا ’’نہیں باجی ! میں یہ بول رہا تھا کہ آپ بھائی جان کے ساتھ ساتھ ہی چلاکریں نہیں تو کہیں بھیڑ میں گم ہوجائیں گی …!!
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
…………………………
ہاتھ ملا …!
٭ بیوی شرابی شوہر کو ٹھیک کرنے کیلئے کالا لباس پہن کر کھڑی ہوگئی ۔
شوہر جھومتے ہوئے بولا تم کون ہو؟
بیوی : میں چُڑیل ہوں
شرابی : ہاتھ ملا ، میں تیری بہن کا شوہر ہوں ۔
اسد احمد خان ۔ ہمایوں نگر ، حیدرآباد
…………………………
اصلی ترقی …!!
٭ ایک مقام پر برطانوی ، امریکی ، جرمن اور برصغیر کے لوگ بیٹھے ہوئے الیکشن کے بارے میں گفتگو کررہے تھے ۔
برطانوی شخص نے کہا : ہمارے ملک میں پوسٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی سہولت حاصل ہے۔ جرمن : ہمارے ملک میں ترقی کا یہ عالم ہے کہ انٹرنیٹ سے آن لائن ووٹ کاسٹ ہوجاتا ہے۔
امریکی : ہم اتنی ترقی کرچکے ہیں کہ موبائیل میسیج سے ہی ووٹ ڈال دیتے ہیں۔
ان سب کی باتیں سُن کر برصغیر ہند و پاک کے شخص نے کہا : ہم لوگ گھر پر ہی بیٹھے رہتے ہیں اور ہمارا ووٹ کوئی ڈال جاتا ہے۔ یہ ہوتی ہے اصلی ترقی …!!
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
اور چلی گئی !!
٭ ایک غائب دماغ پروفیسر جب گھر آئے تو ان کی ہمسفر نے پوچھا ’’صبح تو آپ کار سے گئے تھے ! تو پھر کار کہاں ہے ؟ ‘‘
پروفیسر صاحب بولے میں کار لیکر گیا تھا …! میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے ۔ پھر کچھ ہی دیر بعد بولے ہاں یاد آیا !! بیگم میں کار پر ہی واپس گھر آرہا تھا راستے میں ایک نوجوان خوبصورت لڑکی نے لفٹ مانگی میں نے اُسے بٹھالیا جب میرا گھر آیا تو میں نے اس کاشکریہ ادا کیا اور اُس نے کار اسٹارٹ کی اور چلی گئی !!۔
رشید شوق ؔ ۔ بانسواڑہ
…………………………