شیشہ و تیشہ

   

حسن قادری
مزاحیہ قطعہ
شاپنگ کرائی بیگم کو تو خوش ہو کر
جھٹ دی یہ دعا جنت آشیانہ ہو تیرا
میں نے کہا وہاں مجھے حوریں بھی ملیں گی
سن کر وہ بولی کہ پھر جھنم ٹھکانہ ہو تیرا
…………………………
محمد شفیع مرزا انجمؔحیدرآبادی
مزاحیہ غزل
ان کی نوجوانی میں اک صدی نظر آئی
چوکڑے کے گرتے ہی چوکڑی نظر آئی
رسم رونمائی میں جب وہ مُسکرا اُٹھے
روشنی کے پیکر سے تیرگی نظر آئی
کمتروں کی شادی میں کمترے اکٹھا تھے
کمتروں کی شادی میں برتری نظر آئی
وہ سُنا کے دو غزلہ سب کو بور کرڈالے
پھر بھی اُن کے چہرے پر بے بسی نظر آئی
لیڈروں کے چہرے پر روز و شب بحالی ہے
شاعروں کے چہرے پر مفلسی نظر آئی
…………………………
عکس و معکوس…!!
٭ پٹرول بہت جلد 120 روپئے فی لیٹر ہوجائیگا…!!
l ڈالر بھی اسی فراق میں ہے ۔
٭ ہم خیال جماعت کو قیمتی اراضی کے الاٹمنٹ کا تحفہ!
l تائید کا سودا ، فائدہ ہی فائدہ ۔
٭ تاریخی میوزیم سے نظام کی نادر اشیاء کا سرقہ!
l چوروں کا مضبوط نظامِ عمل
٭ سی سی ٹی وی کیمروں سے جرائم میں کمی!
l گرفتاری کا خوف ناکہ جرائم سے نفرت
٭ اسرائیل عراق میں کرسکتا ہے ایرانی اہداف پر حملہ ؟
l جو آخرِ کار آخری حملہ ثابت ہوگا
٭ پرانے شہر میں صرف سنگِ بنیاد کاچلن!
l جیسے دودھ پیتے بچوں میں نپّل کا چلن۔
یاور علی مرزا۔تارناکہ
…………………………
حقیقت میں…!!
رپورٹر : آپ نے 1990 ء میں عراق پر حملہ کیوں کیا تھا ؟
امریکہ : اس لئے کہ ہم کو شبہ تھا کہ عراق میں دنیا کو تباہ کرنے کیلئے خطرناک ہتھیار موجود ہیں۔
رپورٹر : آپ نے سیریا ( ملک شام ) پر حملہ کیوں کیا ؟
امریکہ : اس لئے کہ ہم کو شبہ تھا کہ سیریا (شام) میں بھی دنیا کو تباہ کرنے کیلئے خطرناک ہتھیار موجود ہیں۔
رپورٹر : تو پھر آپ نے شمالی کوریا پر حملہ کیوں نہیں کیا…!؟
امریکہ : آپ پاگل ہیں کیا …!شمالی کوریا کے پاس تو حقیقت میں دنیا کو تباہ کرنے کے خطرناک ہتھیار موجود ہیں…!!
محمد عبدالرزاق ۔ آصف نگر
…………………………
ہونے کا ثبوت …!
٭ اندھے کو آنکھ ، شاعر کو داد، بھکاری کو نوٹ اور لیڈر کو ووٹ چاہئے ۔ سامعین کی خاموشی اور داد نہ دینے پر جھنجھلاکر ایک شاعر بولا ! حضرات ! آپ اپنے ہونے کا ثبوت دیں ۔ فوری سامعین میں سے ایک منچلا بولا ’’ہونے کا یا سونے کا …!؟‘‘
ذکریا سلطان ۔ ریاض سعودی عرب
………………………
اپنائیت …!
٭ ایک سیاست داں قیدیوں کی حالت کا جائزہ لینے کیلئے جیل پہنچا . جب کھانے پر سارے قیدی اکٹھے ہو گئے تو جیلر نے سیاست داں سے درخواست کی کہ وہ قیدیوں سے خطاب کریں۔ کچھ سوچے سمجھے بغیر سیاست داں نے تقریر شروع کر دی۔
’’ میرے معزز شہریو !‘‘
مگر قیدیوں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر اسے خیال آیا کے جیل میں آنے کے بعد وہ معزز شہری نہیں رہے . اس نے فوراً اپنی بات کی اصلاح کی ’’ میرے ساتھی مجرمو !‘‘
لیکن یہ الفاظ تو پچھلے الفاظ سے بھی زیادہ خطرناک تھے چنانچہ اس نے جھلا کر کہا۔ ’’ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا تمہیں کیا کہہ کر مخاطب کروں لیکن خود کو تمہارے درمیان پا کر بہت خوشی ہو رہی ہے ، یوں لگتا ہے کے جیسے میں اپنوں میں آگیا ہوں ۔‘‘
عبداﷲ محمد عبداﷲ ۔ چندرائن گٹہ
…………………………