صاحب کی جی ایس ٹی گھٹنے لگتی ہے

   

شہریت بل …غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم
طلاق ثلاثہ آرڈیننس … ہندوتوا ایجنڈہ

رشیدالدین
انتخابی سیمی فائنل میں کراری ہار کے بعد بی جے پی لوک سبھا فائنل کی تیاریوں میں جنون کی حد تک مصروف ہوچکی ہے۔ ایک طرف مذہبی ایجنڈہ تو دوسری طرف سماجی انصاف کا نعرہ ۔ اتنا ہی نہیں جی ایس ٹی میں بھاری رعایتوں کے ذریعہ تاجرین کو خوش کرنے کے اقدامات ۔ الغرض بی جے پی 2019 ء میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتی۔ اعلیٰ طبقات کی دلجوئی کیلئے تعلیم اور روزگار میں 10 فیصد تحفظات کی فراہمی ، ہندوتوا ایجنڈہ کے تحت پاکستان ، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہندوؤں کو شہریت کا قانون اور طلاق ثلاثہ پر روک لگانے کیلئے دوبارہ آرڈیننس کی منظوری۔ بیک وقت ہر محاذ پر مودی حکومت کی محنت جاری ہے۔ عام آدمی کو خوش کرنے کیلئے انتخابات کی تاریخوں کے اعلان تک مزید کئی شہرت پسند اسکیمات کا اعلان ہوسکتا ہے۔ 2014 ء میں عوام نے نریندر مودی کی جملہ بازی پر بھروسہ کرتے ہوئے بھاری اکثریت سے اقتدار پر فائز کیا تھا لیکن گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں مودی کا جادو کمزور پڑگیا۔ عوام جان گئے کہ یہ محض اعلانات کرنے والی حکومت ہے۔ لوک سبھا انتخابات سے عین قبل پانچ ریاستوں میں شکست اور تین ریاستوں میں اقتدار سے محرومی سے دراصل ہوش اڑچکے ہیں۔ بی جے پی نے ہر محاذ پر رائے دہندوں کو خوش کرنے کی مہم شروع کردی ہے۔ نوٹ بندی کے بعد جس فیصلہ نے ہر گھر کی معیشت کو نقصان پہنچایا ، وہ جی ایس ٹی کا نفاذ تھا۔ جی ایس ٹی جسے راہول گاندھی نے ’’گبر سنگھ ٹیکس‘‘ کا نام دیا ہے، متوسط اور غریب طبقات کی حالات کو بگاڑ چکا ہے۔ حکومت جی ایس ٹی کے نفاذ کو حق بجانب قرار دے رہی ہے لیکن جب جب عوام نے ووٹ کے ذریعہ مودی حکومت کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کی ، جی ایس ٹی کی شرح گھٹنے لگی۔

راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اقتدار سے محرومی کے بعد جی ایس ٹی کا پارہ تیزی سے اترنے لگا ہے اور حکومت عوام پر کچھ زیادہ ہی مہربان دکھائی دے رہی ہے۔ جی ایس ٹی میں بھاری گراوٹ حکومت کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتی ہے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نام پر اعلیٰ طبقات کو تحفظات فراہم کرنے دستور میں ترمیم کی گئی ۔ کل تک مسلمانوں کو اضافی تحفظات کی مخالفت کی گئی اور 50 فیصد سے زائد کرنے کو سازش کہنے والے نریندر مودی آج سماجی انصاف کی دہائی دے رہے ہیں۔ سماجی انصاف اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرہ کے تحت کیا مسلمان نہیں آتے ؟ ہندوتوا ایجنڈہ کے تحت شہریت بل کو منظوری دیتے ہوئے پڑوسی ممالک سے آنے والوں کو شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سہولت سے مسلمان محروم ہیں۔ اس قانون کے ذریعہ دراصل مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مودی حکومت کو دیگر ممالک میں ظلم کا شکار غیر مسلموں کی فکر ہے لیکن ہندوستان میں مظالم کا شکار مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔ کیا مسلمان ملک کے شہری نہیں ہے ؟ کیا ملک پر ان کا مساوی حق نہیں ہے ؟ دیگر ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کو شہریت اور مسلمان جو کہ پہلے سے شہری ہیں، ان سے دوسرے درجہ کا برتاؤ کیا یہی سماجی انصاف ہے جس کا نریندر مودی نے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف لیا تھا کہ ’’تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مساوی انصاف کروں گا‘‘۔ ہندوستان کے شہری مسلمانوں کا کیا حال ہے ، اس بارے میں انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹ گواہ ہے۔ مسلمانوں میں عدم تحفظ اور خوف کا ماحول پیدا کرتے ہوئے حوصلے پست کرنے کی سازش ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کے لئے کبھی آواز نہ اٹھاسکیں۔ عجیب حال ہے کہ غیر ملکیوں کے استقبال کیلئے خیرمقدمی کمانیں اور شہریت دینے کیلئے کاؤنٹرس کا قیام لیکن جنہوں نے ملک کی آزادی کیلئے تن من دھن کی قربانی دی اور ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کیا، انہیں جارحانہ فرقہ پرست پاکستان جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اپنے حقوق کیلئے جو دستور میں دیئے گئے آواز اٹھائیں تو پاکستانی کا لیبل لگادیا جاتا ہے ۔ سماج کو ہندو اور مسلم کے نام پر کب تک تقسیم کیا جائے گا۔ شہریت قانون دراصل ’’غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم ‘‘ کے مترادف ہے جہاں گھر والوں سے زیادہ باہر والوں پر محبت و عقیدت کے پھول نچھاور کئے جارہے ہیں۔ آسام میں ایک جنبش قلم سے 40 لاکھ ناموں کو شہریت کے رجسٹر سے خارج کردیا ہے جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ جو مسلمان نسل در نسل ہندوستانی تھے، وہ ایک لمحہ میں غیر ملکی ہوگئے۔ شہریت کیلئے اپیل اور فہرست پر نظرثانی کی باتیں محض دکھاوا ہیں۔ بی جے پی پر اکثریتی فرقہ پرستی کا جنون اس قدر سوار ہے کہ اسے مسلمانوں کی حب الوطنی پر اعتبار نہیں لیکن پڑوسی ممالک سے آنے والے ہندوؤں کو آنکھ بند کر کے شہریت دینے تیار ہیں حالانکہ ان میں کوئی دشمن ملک کا جاسوس اور دہشت گرد بھی ہوسکتا ہے۔ مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ سے خائف سنگھ پریوار ہندوؤں کی آبادی میں اضافہ پڑوسی ممالک کے ہندوؤں کو شہریت دیتے ہوئے کرنا چاہتے ہیں۔ ویسے ہندوؤں کو زائد بچے پیدا کرنے کی اپیلوں اور ترغیبات پر کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ شہریت بل دراصل ہندو ووٹ مستحکم کرنے کی کوشش ہے۔ سیاسی فائدہ کیلئے ایک طرف مذہبی جذبات تو دوسری طرف سماجی انصاف کا نعرہ۔

مودی حکومت میں شریعت میں مداخلت سے متعلق طلاق ثلاثہ بل کی راجیہ سبھا میں عدم منظوری کا بہانہ بناکر دوسری مرتبہ آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مرکزی کابینہ نے بل میں بعض ترمیمات کے ساتھ طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اور طلاق دینے والے شخص کو سزا کی گنجائش کے ساتھ آرڈیننس کو منظوری دے دی ۔ یہ پہلے سے طئے شدہ پروگرام تھا، اسی لئے راجیہ سبھا میں حکومت نے بل کو دوبارہ پیش نہیں کیا اور منظوری کے سلسلہ میں اپوزیشن سے مشاورت نہیں کی۔ اپوزیشن نے بل کو سلیکٹ کمیٹی سے رجوع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ مودی حکومت کو مسلم خواتین سے ہمدردی کم اور ہندو ووٹ بینک کی فکر زیادہ ہے۔ لوک سبھا انتخابات تک یکے بعد دیگرے اس طرح کے متنازعہ فیصلوں کے ذریعہ ہندووں کو خوش کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ رام مندر کا کارڈ ناکام ہوچکا ہے کیونکہ ہندوؤں کو بھی اس مسئلہ سے کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی اور مندر کے نام پر شروع کردہ تحریکات بری طرح ناکام ہوگئیں۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کی جانب سے سی بی آئی ڈائرکٹر کے عہدہ پر بحالی کے باوجود مرکز نے الوک ورما کا تبادلہ کردیا۔ الوک ورما سی بی آئی میں ایک دن کا بادشاہ ثابت ہوئے۔ اس معاملہ میں قانونی ماہرین عاملہ کے امور میں عدلیہ کی مداخلت پر فکرمند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جمہوریت میں مقننہ اور عدلیہ کا کام عاملہ سے تعاون کرنا ہے۔ عوام کو شائد یہ غلط فہمی ہے کہ عدالت کا ہر فیصلہ غیر جانبدار ہوتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں جس کا کھلا ثبوت بابری مسجد ملکیت کے سلسلہ میں الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے جس میں اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ۔ عدالت کو مسجد کی اراضی تقسیم کرنے پر کوئی اختیار نہیں اور مسجد تاقیامت مسجد برقرار رہتی ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں کس حد تک رسائی رکھتی ہیں، اس کا اندازہ بابری مسجد مقدمہ میں ہوا جہاں سپریم کورٹ کے دستوری بنچ میں ایسے جج کو شامل کردیا گیا جو کلیان سنگھ کے بچاؤ میں وکیل رہے تھے ۔ عدالت کی روایت کے برخلاف جج کی شمولیت کی ایک غیر مسلم وکیل نے بروقت نشاندہی کی۔ مسلم فریقین کے وکیل نامور قانون داں راجیو دھون ستائش کے مستحق ہیں جنہوں نے اس غلطی کی نشاندہی کی اور جسٹس للت کو بنچ سے علحدہ ہونا پڑا۔ اگرچہ ملک میں مسلم نامور قانون داں افراد کی کمی ہے لیکن ہندوستان کے خمیر میں رواداری کا ثبوت راجیو دھون جیسے وکلاء نے فراہم کیا ہے۔ انتخابی فائدہ کیلئے مودی حکومت کے فیصلوں پر عمران پرتاپ گڑھی نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
جب جب ڈور پتنگ سے کٹنے لگتی ہے
تب تب کوئی سی ڈی بٹنے لگتی ہے
راہول جیت نہ جائے اس ڈر سے
صاحب کی جی ایس ٹی گھٹنے لگتی ہے