صحافی محمد زبیر کو 1983کی ایک فلم کی تصویر شیئر کرنے پر گرفتار کیاگیا

,

   

زبیر کے ایک ماضی کے پوسٹ کو جو 2017کی تاریخ میں پیش کیاگیاتھا ان کے ’ہندو فوبک‘ ہونے کا رحجان بنانے کے لئے استعمال کیاجارہا ہے۔ مگر اس کا اصل مقصد بی جے پی کے کھلے جوٹ کو بے نقاب کرنے کے لئے زبیر کو نقصان پہنچاناہے۔


الٹ نیوز ایڈیٹر او رشریک بانی محمد زبیر کو 27جون کی رات دہلی پولیس نے گرفتار کیا۔ پولیس کے بموجب زبیر نے ایک کلپ پوسٹ کیاتھا جو”قابل اعتراض اور ہندوؤں کے مذہبی جذبات کوٹھیس پہنچانے والا ہے“۔

درحقیقت یہ سچ ہے کہ مذکورہ ایک کلپ1983کی ہندی فلم کسی سے نہ کہنا ہے کا ہے جو کے ایک رومانٹک فلم ہے جس کی ہدایت کاری ریشی کیش مکھرجی نے کی تھی۔ مذکورہ پوسٹ بھی قدیم ہے جو 24مارچ2018کی تاریخ میں کیاگیاتھا۔

شکایت کرنے والا ٹوئٹر ہینڈل بالا جی کی جیں جس نے اپنا نام ہنومان بھگت بتایا نے کیاتھا۔ سال2021اکٹوبر کو ٹوئٹر میں شامل ہونے والے اس ہینڈل کا محض ایک پوسٹ 19جون کا ہے۔

اس ہینڈل کی فی الحال 1381فالورس ہیں۔ اس ٹوئٹر ہینڈل نے زبیر کے ایک قدیم پوسٹ پر اعتراض کیا اور دہلی پولیس سے اس شکایت کرتے ہوئے کہاکہ اس صحافی کا پوسٹ قابل اعتراض تصویر پر مشتمل ہے۔


ایک سینئر پولیس افیسر کا کہنا ہے اس ٹوئٹ میں جان بوجھ کر ایک ہوٹل کی تصویر دیکھائی گئی ہے‘ جس میں ایک بورڈ ہے جس پر لکھا ہے ’ہنی مون ہوٹل“ جس کو ”ہنومان ہوٹل‘‘ کے نام پر تبدیل کیاگیاہے۔

شکایت کردہ نے ایک اسکرین شاٹ پوسٹ کیا ہے اور دہلی کو پولیس کو ٹیگ کیااو رلکھا کہ”ہمارے ہنومان جی کو ہنی مون سے جوڑنا راست طور پر ہندوؤں کے جذبات کو توہین ہے کیونکہ وہ برہماچاری تھے۔

اس شخص کے خلاف مہربانی کرکے کاروائی کریں‘ دہلی پولیس“۔ انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے مذکورہ سینئر افیسر نے کہاکہ ”ہم نے پچھلے ہفتہ اس ٹوئٹ کی جانچ کی۔ زبیر نے 2018میں یہ ٹوئٹ کیاتھا مگر لوگوں نے حال ہی میں اس مسلئے کو اٹھایاہے۔

ہم نے کاروائی کی او رایک مقدمہ درج کیاہے“۔دہلی پولیس کے ایف ائی آر میں کہاگیا ہے کہ ”وہ الفاظ اور تصویر جو محمد زبیر نے استعمال کئے ہیں وہ ایک مخصوص مذہبی کمیونٹی کے خلاف ہیں اور لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لئے بہت کافی ہیں جس سے معاشرہ میں عوام میں بے سکونی پیدا ہوسکتی ہے“۔

ائی پی سی کی دفعات 153اور295کے تحت زبیر کوگرفتار کیاگیاہے۔ ڈپٹی کمشنر پولیس کے پی ایس ملہوترہ نے کہاکہ ”ان کا کردار قابل اعتراض ہے۔

اس علیحدہ معاملے میں جو ائی پی سی کی دفعہ 153اے اور295اے کے تحت درج کیاگیا ہے ان سے جانچ کی جائے گی“۔

راہول گاندھی نے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ ”بی جے پی کی نفرت‘ تعصب‘ جھوٹ کو بے نقاب کرنے والے ہر شخص کے لئے خطرہ ہے۔ ایک حق کی آواز کی گرفتاری صرف ہزاروں مزید کو پیش کریگی۔ سچ کی ہمیشہ سچائی پر جیت ہوئی ہے“

زبیر کی گرفتاری پر صحافی برداری او رسیاسی قائدین میں کافی ناراضگی او ربرہمی ہے۔ کانگریس قائدین راہول گاندھی‘ ششی تھرور‘ اے ائی ایم ائی ایم صدر اسدالدین اویسی‘ ٹی ایم سی لیڈر ڈیرک اوبرین‘ مہوا موئترا اور دیگر کئی نے زبیر کی حمایت میں ٹوئٹ کیاہے۔

زبیر سخت گیر ہندوتوا قائدین کی راڈار ہیں جو انہیں ”ہندو فوبیک“ کا نام دیتے ہیں۔ حالانکہ ماضی میں بھی زبیر اپنے پوسٹوں کی وجہہ سے نشانہ بنائے گئے ہیں‘ مذکورہ پولیس موثر شواہد کی کمی کے سبب گرفتار کرنے سے قاصر تھی۔

تاہم حال ہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی اب برطرف ترجمان نوپور شرما کی جانب سے شان رسالتؐ میں گستاخانہ کلمات کی ادائیگی کو دوبارہ زبیر نے ٹائمز ناؤ کے وہ ویڈیوکلپ منظرعام پر لایاتھاجس میں نیوز اینکر کے ساتھ ایک مباحثہ کے دوران شرما نے یہ گستاخی کی تھی۔

انہوں نے ٹائمز گروپ کے ایڈیٹر ونیت جین اور نویکاکمار پر نیوزٹیلی ویثرن کے پرائم ٹائم میں نفرت پھیلانے کی منظوری دینے کا ذمہ دار ٹہرایاتھا

زبیر کے ٹوئٹ پر اسلامی ممالک چوکس ہوگئے اور حکومت ہند کی مذمت کی اور ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کی دھمکی دی۔ اس کے جواب میں بی جے پی کی مرکزی حکومت نے نوپور شرما کو برطرف کردیاتھا۔

تاہم نوپور نے اپنے متعدد انٹرویو میں یہ کہاکہ اگر انہیں اور ان کے فیملی کو کچھ ہوتا ہے تو اس کے ذمہ دار محمد زبیر ہوں گے۔ اس کے بعد سے ہندوتوا ٹرول کے نشانے پر زبیر ہیں۔ ہیش ٹیگ محمد زبیر کی گرفتاری قومی سطح پر شروع اور گشت کرنے لگا ہے۔

ہندوستان میں بھی مختلف ریاستوں جیسے تلنگانہ‘ اترپردیش‘ بہار‘ جھارکھنڈ‘ مغربی بنگال‘ راجستھان میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ احتجاج کے دوران دو مسلم نوجوانوں کی مبینہ پولیس فائرینگ میں موت بھی ہوئی ہے۔

زبیر کے ایک ماضی کے پوسٹ کو جو 2017کی تاریخ میں پیش کیاگیاتھا ان کے ’ہندو فوبک‘ ہونے کا رحجان بنانے کے لئے استعمال کیاجارہا ہے۔ مگر اس کا اصل مقصد بی جے پی کے کھلے جوٹ کو بے نقاب کرنے کے لئے زبیر کو نقصان پہنچاناہے۔