صحافی کے جلوس جنازہ میں اسرائیل پولیس نے سوگواروں پر حملہ کیا

,

   

ہزاروں سوگوار‘ جس میں بعض فلسطینی پرچم تھامے ہوئے فلسطین فلسطین کے نعرے لگارہے تھے شیرین ابوعقیلہ کے جنازے میں شامل ہوئے ہیں۔
یروشلم۔الجزیرہ کی صحافی شیرین ابو عقیلہ کے جلوس جنازہ میں امڈ پڑنے والے سوگواروں پر اسرائیلی پولیس نے جمعہ کے روز حملہ کردیا‘ سوگواروں کے ساتھ مارپیٹ تابوت کے ہاتھوں سے پھسل کر گرنے کی وجہہ بنی ہے۔

مشرقی فلسطین میں فلسطنیوں کے قوم پرستی کے ایک غیر معمولی مظاہرے کے دوران یہ واقعہ پیش آیا‘ شہر کا یہ وہ حصہ ہے جس پر1967میں اسرائیلیوں نے قبضہ کرلیاتھا اور فلسطینی اس کو اپنی درالحکومت مانتے ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ مشرقی یروشلم اس کاحصہ ہے اور اس کی درالحکومت ہے‘ ایک ہی قدم میں اس نے اس علاقے کو ضم کرلیا ہے جس کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیاجاتا ہے۔

فلسطینی ریاست کی کسی بھی حمایت کو فوری طور سے اسرائیل ختم کردیتا ہے۔ہزاروں سوگوار‘ جس میں بعض فلسطینی پرچم تھامے ہوئے فلسطین فلسطین کے نعرے لگارہے تھے شیرین ابوعقیلہ کے جنازے میں شامل ہوئے ہیں۔

جس کے متعلق عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی دستوں نے اس کو اس ہفتہ کے اوائل میں اس وقت قتل کردیا ہے جب وہ مغربی کنارہ میں ملٹری دھاو وں کی رپورٹنگ کررہی تھیں۔ ہجوم سے آوازیں آرہی تھیں ہم مریں گے فلسطین کے لئے زندہ رہیں گے فلسطین کے لئے۔

ہمارے ہر دلعزیز گھر۔ بعدازاں انہوں نے فلسطین کا قومی ترانہ بھی گایاہے۔تدفین سے قبل درجنوں سوگواروں نے تابوت کے ساتھ قدیم شہر کے قریب میں ایک کتھولک گرجا گھر تک اسپتال سے پیدل جانے کی کوشش کی تھی۔

پولیس نے کہاکہ اسپتال کے پاس ہجوم نے قوم پرستی پر اکسانے کاکام کیا‘ روک جانے کی بات کو نظر انداز کیااور پولیس پر پتھر اؤ کیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس والوں کو کاروائی کے لئے مجبور ہونا پڑا۔

درایں اثناء اسرائیلی فوج نے کہاکہ ابوعقیلہ کی موت کے متعلق اس کی ابتدائی میں جانچ میں یہ بات سامنے ائی ہے کہ مغربی کنارہ کے شہر جینین میں ان کے قتل سے تقریباً200میٹر دور پر بڑے پیمانے پر گولی باری چل رہی ہے‘ مگر یہ ثابت نہیں ہوا ہے کہ آیا انہیں اسرائیلی دستوں نے گولی ماری یافلسطینی دہشت گردوں نے گولی ماری ہے۔ جمعہ کے روز جنین میں ایک نئی لڑائی میں ایک اسرائیلی پولیس جوان کے مارے جانے کا اسرائیل نے اعلان کیاہے۔

حالیہ دنوں میں فلسطینی علاقوں میں عرب دنیا میں غم کی لہر ہے۔ ابوعقیلہ ایک قابل احترام نامہ نگار تھیں انہوں نے اسرائیلی فوجی حکمرانی کے تحت زندگی کی تلخ حقیقتوں کا احاطہ کرتے ہوئے چار صدائیاں گذاردی تھیں‘ جس کے چھٹی صدی میں کہیں سے بھی خاتمہ نظر نہیں آتا ہے۔

اسپتال کے باہر گرما گرم منظرعام کے بعد پولیس نے مذکورہ کتھولک گرجا گھر کی طرف تابوت لے جانے کی گھر والوں کو اجازت دی تھی‘ جہاں پر اسپتال کے اطراف واکناف میں محاصرہ کرنے اور مظاہرین پر آنسو گیس برسانے سے قبل بھاری تعداد میں سوگوار جمع تھے۔

ہزاروں سوگوار‘ جس میں بعض فلسطینی پرچم تھامے ہوئے فلسطین فلسطین کے نعرے لگارہے تھے شیرین ابوعقیلہ کے جنازے میں شامل ہوئے ہیں۔قتل کے دن ابوعقیلہ کے گھر پولیس گئی تھی اور شہر میں منعقدہ تعزیتی تقاریت سے فلسطینی پرچم نکالتے ہوئے بھی پولیس کو دیکھا گیاتھا