صحیح میدان عمل کا انتخاب اور راہِ استقامت ||از: شعیب حسینی ندوی

,

   

صحیح میدان عمل کا انتخاب اور راہِ استقامت ||از: شعیب حسینی ندوی

 

انسان کو جو گوناگوں صلاحیتیں رب ذو الجلال نے ودیعت کی ہیں انکا درست استعمال شخصیت کو نیک نام اور مفید تر بنا دیتا ہے اور اسکے نفع کو عام کرتا ہے، لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اپنے دائرۂ اختیار کو سمجھ کر میدان عمل اپنانا اور اپنی جانفشانی اس راہ میں لگانا جس کے مثبت نتائج دریافت ہو سکیں دانشمندی کی علامت ہے۔

 

بسا اوقات اولویات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے انسان کم اہمیت والی چیز میں اپنی بیشتر توانائی صرف کر دیتا ہے اور “جہاد فی غیر محلہ” میں لگ جاتا ہے، البتہ یہ بات بھی ذرا دقت طلب ہے کہ اولویات و ترجیحات کی درست درجہ بندی اور صحیح ترتیب بنائی جا سکے، لیکن پھر بھی با صلاحیت انسان اس کا فہم رکھتا ہے اور عملا اسکو اختیار کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، اس سلسلہ میں سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ سیرت نبوی اور سوانح اہل تجدید کے مطالعہ کی روشنی میں وقت کے تقاضوں اور اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہوئے وسائل پر دسترس اختیار کرکے حکیمانہ اسلوب، دانشمندانہ روش اور میانہ روی کے ساتھ راہِ استقامت کا راہگیر بنا جائے جس میں جذباتی مغلوبیت، عجلت پسندی اور تلون مزاجی نہ ہو، بلکہ حلم و رشد، حکمت و دانائی، ثبات قدمی اور مستقل مزاجی کی کیفیت ہو، ناروا سلوک اور نا مساعد حالات میں قدم نہ ڈگمگاتے ہوں، فکر و عمل اور کردار و گفتار میں یکسانیت ہو۔

 

جبکہ دوسری طرف ضروری اوصاف میں کمی یا صلاحتیوں کا بے محل استعمال انقلابی شخصیت کو گمنام یا بد نام بنا دیتا ہے،* اس کو اس طرح سمجھیے کہ ایک انجینئر ہو وہ اگر میڈیکل میں زور آزمائی شروع کردے اور اسکی بحثوں میں الجھنے لگے، اور ڈاکٹروں سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے کو فوقیت دینے لگے، اپنے میدان اختصاص کو چھوڑ کر دوسرے میدان میں توانائی خرچ کرنے لگے تو اسکا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جو کام وہ اپنے میدان میں کر سکتا تھا اس سے محروم ہو جائیگا ساتھ ہی دوسرے میدان میں ناقص پیش قدمی سے کم حیثیت ہو کر رہ جائے گا۔

 

دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک شخص تحقیقی، تعلیمی اور تصنیفی میدان میں ید طولی حاصل کر لیتا ہے پھر رفاہی یا انتظامی کاموں میں مصروف ہو کر ایسا لا تعلق ہو جاتا ہے اپنے اصل میدان سے کہ جو گرانقدر خدمات انجام دے سکتا تھا اس سے محروم ہو جاتا ہے، ساتھ ہی انتظامی کاموں میں اس سے غلطیاں ہوتی ہیں اور وہ ان میں پھنس کر رہ جاتا ہے، اگر کسی میں دونوں پہلؤوں سے کام کرنے کی اہلیت موجود ہو تو اسے ترجیحات کو سمجھنا چاہیے ضرورت اور اپنے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے تاکہ وہ بعد میں پشیمان نہ ہو اور صلاحیت کا نقصان نہ کر بیٹھے۔

 

بلا شبہ بعض شخصیتوں میں جامعیت ہوتی ہے کہ مختلف گوشہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دے سکتے ہیں، لیکن انکو بھی ترجیحات و اولویات کا لحاظ کر کے کام کرنا ہوتا ہے تب ہی انکی خدمات محفوظ رہتی ہیں اور اپنا اثر دکھاتی ہیں، مثال کے طور پر ایک شخص تعلیمی اور انتظامی کاموں میں نمایاں فوقیت رکھتا ہے، اب اسے سمجھنا ہوگا کہ کس کام کو کتنا وقت دینا ہے تاکہ ایک سے دوسرے کا حرج نہ ہو، پھر بھی اسے کسی ایک کو ترجیح دینی ہی پڑے گی کہ تعلمی سرگرمی کو اصل بنا کر انتظامی امور میں معاونین تیار کر لے اور ان سے کام نکالے، یا انتظامی سرگرمی میں نشیط ہو کر تعلیمی سرگرمی کو محدود کر لے، حسب ضرورت اسے فیصلہ لینا ہوگا۔

میرے ذہن‌ میں اس وقت حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی مثال آرہی ہے، جنکی گوناگوں خدمات مختلف میدانوں میں دیکھی گئی ہیں، وہ کامیاب معلم، بڑے ادیب و مصنف، سرگرم داعی، ملی رہنما، اداروں کے منتظم اعلی کی حیثیت سے معروف ہوئے، لیکن آپ انکی زندگی کو دیکھیے تو نظر آئے گا کہ تعلیمی امور سے وابستہ رہتے ہوئے انتظامی اور دعوتی سرگرمیوں سے جب وابستہ ہوئے تو ترجیحات کو سمجھ کر میدانوں کا انتخاب کرنا پڑا، تعلیمی میدان میں اپنی سرگرمی محدود کرکے دعوتی میدان کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا، اور انتظامی امور میں معاونین کا سہارا لیکر اپنے کو ایک حد تک فارغ کیا، تصنیفی میدان میں ایک ٹیم تیار کرکے اس کی خدمات سے تحقیقات کا کام لیا اور کم وقت میں زیادہ کام ممکن ہوا۔

 

ضرورت ہے کہ ہم فارغین مدارس اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھیں اور میدان اختصاص کو میدان عمل بنائیں اور آگے کی طرف بڑھتے رہنے کا ہنر سیکھیں۔