صدی کے آخر تک ہمالیہ کے دو تہائی گلیشیئر پگھل جانے کا خطرہ

   

لندن ۔ 4 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) رواں صدی کے آخر تک ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع وسیع و عریض گلیشیئرز میں سے دو تہائی کے پگھل جانے کا خطرہ ہے۔ یہ بات سائنسدانوں نے اپنی ایک ایسی نئی رپورٹ میں کہی ہے، جو آج جاری کی گئی۔نیپال میں، جہاں دنیا کی کئی بلند ترین پہاڑی چوٹیاں واقع ہیں، ملکی دارالحکومت کھٹمنڈو سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس نئے لیکن بہت طویل سائنسی مطالعے کے مطابق ہمالیہ کے وسیع و عریض گلیشیئرز میں سے دو تہائی کے 2100 ئتک پگھل جانے کا خدشہ ہے۔ساتھ ہی اس مطالعاتی رپورٹ میں یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ اگر زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کو محدود رکھنے سے متعلق پیرس کے عالمی ماحولیاتی معاہدے کے اہداف حاصل کر بھی لیے گئے، تو بھی ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے ایک تہائی گلیشیئرز ناپید ہو جائیں گے۔پیرس کے عالمی ماحولیاتی معاہدے میں زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کو زیادہ سے زیادہ صرف 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کو ہدف بنایا گیا ہے۔یہ رپورٹ پیر 4 فروری کو کھٹمنڈو میں قائم اس بین الاقوامی مرکز نے جاری کی، جو پہاڑی خطوں کی ترقی اور حفاظت کے لیے سرگرم ہے اور ICIMOD کہلاتا ہے۔نیپال دنیا کے ان آٹھ ممالک میں سے صف اول کا ملک ہے، جسے اپنے ہاں گلیشیئرز کے پگھل جانے سے شدید ترین خطرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ نئی رپورٹ ہندوکش ہمالیہ (HKH) کے پہاڑی علاقے کے بارے میں تیار کی گئی ہے، جہاں مجموعی طور پر گلیشیئرز اتنے زیادہ اور بڑے ہیں کہ ان کی وجہ سے اس خطے کو قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعد دنیا کا ’تیسرا قطب‘ یا ’تھرڈ پول‘ بھی کہا جاتا ہے۔اس خطے میں گلیشیئرز کے پگھلنے سے حاصل ہونے والا پانی قریبی پہاڑی علاقوں میں آباد 25 کروڑ (250 ملین) انسانوں اور مختلف ممالک میں ان پانیوں سے بننے والے دریاؤں کی وادیوں میں بسنے والے ایک ارب 65 کروڑ (1.65 بلین) انسانوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔انہی گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ سے دنیا کے دس انتہائی اہم دریائی نظاموں کو پانی ملتا ہے، جن میں دریائے گنگا، دریائے سندھ، دریائے زرد اور دریائے میکانگ جیسے بہت طویل دریائی نظام شامل ہیں۔