طالبان ۔ امریکہ جنگ ،پاکستان فاتح

   

ایلی لیک
اب جبکہ واشنگٹن اس بات پر غور کررہا ہے کہ امریکہ ، افغانستان میں اپنی طویل ترین جنگ کیسے ہارا۔ یہ تو امریکہ کی سوچ کا سوال ہے لیکن ایک اور اہم سوال ہے جس پر غور کیا جانا چاہئے، وہ یہ کہ جنگ کس نے جیتی؟ یہاں میں امریکہ کے ہارنے یا طالبان کے جیتنے کی بات نہیں کررہا ہوں۔ بے شک امریکہ اور طالبان کے درمیان جنگ ضرور ہوئی، لیکن کامیابی کسی اور کی ہوئی جس پر میں آگے کے سطور میں روشنی ڈالوں گا۔ بلاشبہ فاشسٹ طالبان نے افغانستان میں عبوری حکومت تشکیل دی ہے، جس میں کئی ایک شدت سے مطلوب دہشت گردوں کو شامل کیا گیا ہے۔ اگرچہ جنگ ختم ہوچکی ہے، امریکہ کی ہار اور طالبان کی جیت کے اعلانات کئے جارہے ہیں لیکن اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اس جنگ کا سب سے بڑا فاتح ’’طالبان کا سب سے بڑا سرپرست پاکستان‘‘ ہے۔ گزشتہ ماہ طالبان کامیابی کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے بڑی آسانی سے کابل میں داخل ہوئے۔ طالبان کی اس کامیابی پر امریکہ کے اکثر اتحادیوں نے حیرت، صدمہ اور برہمی کا اظہار کیا، لیکن پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے افغانستان کی منتخبہ حکومت کے زوال کا یہ کہتے ہوئے جشن منایا کہ طالبان نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ پھینکا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو 9/11 دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا اور اس جنگ میں پاکستان نے ڈبل گیم کھیلا۔ اس نے موقع بہ موقع القاعدہ اور طالبان رہنماؤں کا پتہ چلانے اور ان کی گرفتاری میں مدد کی اور سال 2010ء میں پاکستان و امریکہ کی خصوصی فورسیس نے ایک اہم آپریشن کے ذریعہ کراچی میں ملا عبدالغنی برادر کو گرفتار کیا، لیکن اس دوران پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ISI اور پاکستانی فوج کے کچھ عناصر نے طالبان کی نہ صرف فنڈنگ کی بلکہ انہیں تربیت بھی فراہم کی۔ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی جانب سے طالبان کو مالیہ کی فراہمی و تربیت کا سلسلہ جاری رہا۔ یہی نہیں بلکہ آئی ایس آئی نے طالبان اور اس کی حلیف تنظیموں بالخصوص انتہائی خطرناک دہشت گرد گروپ کی حیثیت سے پہچان رکھنے والے ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کی بھی مدد کی۔ افغان جنگ کے ابتدائی 10 سال میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان حقانی نیٹ ورک اور طالبان کو پاکستان کی آئی ایس آئی اور فوج کے بعض عناصر کی جانب سے مدد فراہم کئے جانے کا مسئلہ زیرغور بحث رہا، لیکن اس مسئلہ پر نجی سطح پر بات کی گئی اور اسے منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ خاص طور پر ستمبر 2011ء میں کابل کے قریب نیٹو (NATO) کے ایک آؤٹ پوسٹ پر ٹرک بمباری اور پھر امریکی سفارت خانہ پر حملے کا جو واقعہ پیش آیا، اس میں بھی حقانی نیٹ ورک کا ہی اہم کردار تھا۔ ان حملوں کے بعد امریکی فوج کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے صدرنشین ایڈمیرل میک میولن نے خاموشی توڑی اور کہا کہ حقانی نیٹ ورک ، پاکستان کی خفیہ تنظیم آئی ایس آئی کے ایک دائیں بازو کے طور پر کام کررہی ہے۔ اُن کے کہنا کا مطلب یہ تھا کہ امریکی فورسیس کیلئے سب سے خطرناک حقانی نیٹ ورک، پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے مشورہ اور اشاروں پر کام کرتا رہا ہے۔ میک میولن کے اس بیان سے یقینا کسی کو بھی حیران نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اُسے چند ماہ قبل ہی امریکہ نے اُسامہ بن لادن کو ایک خصوصی آپریشن میں ہلاک کیا تھا جو پاکستان کے ایبٹ آباد جیسے علاقہ میں بڑے آرام سے زندگی گزار رہا تھا۔ جہاں تک ایبٹ آباد کا سوال ہے، یہ ویسٹ پوائنٹ کے مساوی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میک میولن نے اُسامہ بن لادن کی خفیہ قیام گاہ پر دھاوے کے بارے میں اپنے پاکستانی ہم منصبوں کو پیشگی اطلاع دینے سے گریز کیا تھا۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز کے بعد سے سال 2001ء اور 2011ء کے دوران امریکہ نے پاکستان کو 20 ارب ڈالرس سے زائد کی فوجی امداد دی تھی۔ 2011ء میں اس سبسڈی میں اضافہ ہونے لگا لیکن 2018ء میں کچھ ایک واقعات کو چھوڑ کر امریکہ نے سلامتی یا سکیورٹی کے معاملے میں دی جانے والی اعانت معطل کردی۔ پابندیاں اور فوجی امداد کی عملاً معطلی امریکہ کا صرف واحد طریقہ کار رہ گیا تھا جس کے ذریعہ وہ اپنے نافرمان حلیف کو سزا دے سکتا تھا اور امریکہ نے سزا دینے کی کوشش بھی کی۔ صدر براک اوباما اپنی دوسری میعاد تک افغانستان سے باہر نکلنے کے راستے تلاش کرتے رہے اور پھر بعد میں ڈونالڈ ٹرمپ کی بحیثیت صدر امریکہ پہلے سال کی تکمیل کے ہوتے ہوتے افغانستان میں تعینات امریکی فورس کی تعداد میں کمی و زیادتی ہوتی رہی اور پھر موجودہ صدر جوبائیڈن نے براک اوباما اور ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے کئے گئے اعلانات کو عملی شکل دیتے ہوئے اپنی فوج کا تخلیہ مکمل کروایا۔ ایسے میں اس بات میں کوئی حیرت نہیں کہ پاکستان ، طالبان کی فتح کا جشن منا رہا ہے اور پاکستانی حکومت کا ایک اہم حصہ سال 2001ء سے طالبان کو اقتدار پر واپس لانے کیلئے کام کرتا رہا ہے۔ جہاں تک پاکستان کے تئیں بائیڈن انتظامیہ کی خاموشی کا سوال ہے، اب تک اس نے پاکستان کی دغابازی پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، لیکن جو محب وطن افغانستانی ہیں، وہ اس مسئلہ پر خاموش نہیں۔ جاریہ ہفتہ کابل میں ایک بڑے احتجاجی مظاہرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ پاکستان، افغانستان کے داخلی اُمور میں مداخلت نہ کرے۔ اگر امریکہ کے چند عہدیدار ان افغان مظاہرین کی تائید و حمایت کرتے تو بہت اچھا ہوتا لیکن فی الوقت اس کی توقع نہیں ہے، کیونکہ پچھلے کئی ماہ میں جوبائیڈن نے بار بار افغانستان کو چھوڑ دینے کا اعلان کیا، لیکن دبے دبے الفاظ میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کو بخشا نہیں جائے گا اگر وہ امریکی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ اگر پاکستان کے فضائی علاقے پر سے اپنی پروازیں گزارنا چاہے تو اسے پاکستان سے منظوری درکار ہوگی۔ بہرحال امریکہ کی افغانستان میں ہمیشہ کیلئے جنگ ختم ہوچکی ہے، لیکن امریکہ کے شراکت دار پاکستان کا امریکہ پر اثر و رسوخ باقی ہے اور وہ اس سے فائدہ بھی حاصل کرسکتا ہے۔ حالانکہ پاکستان نے ہی دنیا کی اس سوپر پاور کو سرزمین افغانستان میں شکست اٹھانے پر مجبور کیا اور امریکی شکست میں طالبان کی مدد کی۔