طلبہ پر مجرمین کی طرح فائرنگ

   

رویش کمار
بندوق کے سائے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹوڈنٹس اپنے ہاتھ بلند کئے چل رہے ہیں۔ جب کبھی یہ منظر میری آنکھوں کے سامنے آئے، پوری تاریخ میرے ذہن میں گھوم جاتی ہے۔ جب کبھی اس منظر کو مدھم کیا جائے، ماضی واضح ہوجاتا ہے۔ جب ماضی کو دھندلا کیا جائے، ہمارے سامنے تاریخ عیاں ہوتی ہے۔ اگر آپ نے ’واٹس ایپ یونیورسٹی‘ سے تاریخ کا جائزہ نہیں لیا ہے تو آپ آسانی سے میرا نکتہ سمجھ جائیں گے۔امید ہے طلبہ آنے والے وقت میں خود کو توہین کے جال میں پھنسنے نہیں دیں گے اور سمجھیں گے کہ انڈین اسٹیٹ کا یہ نیا چہرہ ہے۔ اور چہرہ سے مکھوٹا اُترنے لگا ہے۔ دہلی پولیس نے بھلے ہی اپنی تاریخ میں ہزارہا مظاہروں سے نمٹا ہوگا اور ان مظاہروں میں شامل لوگوں نے دہلی پولیس کا برتاؤ بھی دیکھا ہوگا۔ نربھئے معاملے کے وقت ہزاروں افراد حکومت کے خلاف رائزینا ہلز کے ٹھیک روبرو جمع ہوئے تھے۔ دہلی پولیس کے خلاف بھی نعرے بازی ہوئی لیکن ایسا یقین تھا کہ پولیس فائرنگ نہیں کرے گی۔
جامعہ کے اسٹوڈنٹس کو اپنے ہاتھوں کو اُٹھا کر کیمپس سے باہر نکلتے دیکھنے کے بعد اب وہ بھروسہ ٹوٹ چکا ہے۔ کیمپس سے باہر نکلتے طلبہ کے ساتھ پولیس بھی ہمراہ تھی، جو اَب بدل چکی ہے۔ وہ آبی توپ نہیں بلکہ بندوقوں سے لیس ہے۔ وہ جامعہ میں غیرمتعلقہ افراد کی تلاش میں گئی، اور جب باہر آئی تو اسٹوڈنٹس کو پکڑ لائی۔ امید کہ صورتحال سمجھ آچکی ہوگی۔ آپ (طلبہ و عوام) کی آواز کو بندوقوں نے دبا دیا ہے۔ دہلی پولیس ہماری (عوام کی) نہیں بلکہ ’ان‘ کی (وفادار) ہوچکی ہے۔ اُن کا مطلب ’مملکت‘ نہ کہ حکومت ہے۔
وزیراعظم مودی نے بنگال میں تشدد میں ملوث افراد کی اُن کے لباس سے شناخت کرنے کے تعلق سے بات کی ہے۔ وزیراعظم کی زبان وہ ’زبان‘ اور ’لہجہ‘ سے کچھ مختلف نہیں جو سوشل میڈیا کے ہوا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ اب مملکت کی آواز بھی رہے گی۔ راجیہ سبھا ایم پی راکیش سنہا نے ٹوئٹ کیا اور جامعہ ملیہ کے حالات کا تقابل مسلم لیگ کے ’ڈائریکٹ ایکشن‘ سے کیا۔ گاندھی جی نے جس جامعہ کا سنگ بنیاد رکھا تھا، اسے ڈائریکٹ ایکشن سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔1946ء میں مسلم لیگ نے ’’راست کارروائی‘‘ کا اعلان کیا تھا جس پر کولکاتا میں شدید فسادات بھڑک اٹھے اور ہزاروں ہندو مارے گئے تھے۔ گاندھی جی نے فسادیوں کے لباس نہیں دیکھے بلکہ کولکاتا گئے۔ فسادات کے درمیان کھڑے ہوگئے اور کشیدہ ماحول کو امن کی طرف موڑا۔ کولکاتا کے بعد گاندھی جی بہار بھی گئے جہاں ہندوؤں نے مسلمانوں کو ہلاک کیا تھا۔ بہار کے تشدد کو ٹھنڈا کیا گیا۔ گاندھی جی کے بدن پر کپڑا کم ہوا کرتا تھا، شاید اسی لئے وہ دوسروں کا لباس نہیں دیکھ سکے! انھوں نے بدن کے پیچھے کارفرما ذہن کو دیکھا اور اس کی فراست کو دریافت کیا۔
راکیش سنہا کا ٹوئٹ کہتا ہے کہ یہ 2019ء ہے، 1946ء نہیں۔ سنہا واقعی واٹس ایپ یونیورسٹی کے وائس چانسلر معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے افراد میں سے ہیں جو جامعہ کے تشدد پر اپنی برہمی ظاہر کرنے کے نام پر تاریخ کے اپنے فہم و ادراک کو بدل چکے ہیں۔ قومی کردار کی حامل یونیورسٹی کو مسلم لیگ سے جوڑنا کیسی سوچ ہے؟ وہ بھول گئے کہ جامعہ میں تقریباً 50 فیصد اسٹوڈنٹس غیرمسلم ہیں۔ اگر 100 فیصد مسلم اسٹوڈنٹس ہوتے، تب کیا وہ اس کو مسلم لیگ سے جوڑ سکتے تھے؟ کیا وزیراعظم مودی اور راکیش سنہا دونوں ہی مظاہرے میں ملوث لوگوں کی لباس اور رنگ سے شناخت نہیں کرپا رہے ہیں؟ نوجوانوں کو سمجھنے کے معاملے میں خامی پائی جاتی ہے۔ ہم سمجھنے لگے ہیں کہ انڈیا کے نوجوانوں کو اسمارٹ فونس کی دنیا میں پھینکا جاچکا ہے۔ اپنے کان میں ہیڈفون لگاکر وہ اپنے پسندیدہ گیت میں کہیں کھوچکا ہے۔ چند روز کی ہی بات ہے کہ سینکڑوں اسٹوڈنٹس گجرات کے دارالحکومت گاندھی نگر میں نان سکریٹریٹ اگزام میں رگنگ کے خلاف جمع ہوئے تھے۔ رات کے وقت اسٹوڈنٹس نے اپنے اسمارٹ فون کو ٹارچ لائٹ کے طور پر استعمال کیا۔ حکومت گجرات نے سوچا کہ چند دن میں معاملہ ٹھنڈا پڑجائے گا، لیکن نوجوان ڈٹے رہے اور آخرکار حکومت کو امتحان منسوخ کرنا پڑا۔ اس امتحان کیلئے 11 لاکھ نوجوانوں نے فارم داخل کئے تھے۔
یو پی میں 69,000 ٹیچروں کی بھرتی کا امتحان ہر روز ٹوئٹر کی زینت بنتا رہتا ہے۔ میڈیا اسے نظرانداز کررہا ہے۔ کسی کو پرواہ نہیں کہ ریلوے کے امتحان میں جو الیکشن کے وقت جاری کیا گیا، ہر ایک کو مکتوب تقرر ابھی نہیں ملا ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ریلوے اگزامنیشن سے وابستہ معذورین کئی دنوں تک دہلی کے منڈی ہاؤس میں پڑے رہے۔ اپنی جدوجہد جاری رکھنا چاہئے۔ دہرہ دون میں زائد از 45 روز آیورویدک کالجس کے اسٹوڈنٹس نے فیس میں اضافے کے خلاف جدوجہد کی۔
جب طلبہ یونیورسٹی میں کچھ احتجاج کریں تو ’درس‘ دیا جاتا ہے کہ وہ پڑھنے آئے ہیں۔ جب یونیورسٹی ٹیچرز میں قلت کے تعلق سے خود ٹیچرز مظاہرہ کرتے ہیں تو پڑھائی کس طرح ہوگی اور پھر درس دیتے ہیں کہ وہ پڑھائی نہیں کررہے ہیں۔ جب معقول تعداد میں ٹیچرس دستیاب نہ ہوں تب اسٹیڈی کس طرح ہوگی۔ جب اسٹوڈنٹس جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں فیس میں اضافہ کے خلاف سڑکوں پر آتے ہیں تو اُن کا مضحکہ اُڑایا جاتا ہے۔ ان کو اربن نکسلائٹس کہتے ہیں۔ اس کا کوئی جواب نہیں دیتا کہ جب ایجوکیشن مہنگی ہوجائے تو عام گھرانوں کے طلبہ پڑھائی کیلئے کہاں جائیں گے؟ وہی جے این یو میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونکیشن کے اسٹوڈنٹس فیس میں اضافے کے خلاف 16 دن بطور احتجاج دھرنا دیئے، مگر اُن کی پرواہ کسے ہے؟
درحقیقت، یونیورسٹی کے تعلق سے ایک خاص رجحان جڑ پکڑ گیا ہے۔ وہ قصبات اور دیہات کے نچلے متوسط اور غریب طبقہ کی لڑکیوں کی گورنمنٹ یونیورسٹیز میں پڑھائی سے نفرت کرتے ہیں۔ کئی لوگ بحث کرتے ہیں کہ ہمارے ٹیکس کی رقم سے وہ 40 سال کی عمر تک ریسرچ سے مستفید ہوتے ہیں۔ ہماری ٹیکس رقم سے وہ فری ایجوکیشن کے سبب پرفارمنس پیش کرپاتے ہیں۔ ریسرچ کا بھلا عمر سے کیا تعلق ہے؟ لہٰذا، ایسے کسی بھی اسٹوڈنٹ کو جامعہ ملیہ میں نہیں پڑھنا چاہئے۔ دراصل اُن کا واحد مسئلہ یہ ہے کہ کیوں ایسی یونیورسٹیاں حکومت کے خلاف بار بار آواز اٹھاتی ہیں؟ اپوزیشن پارٹیاں ماند پڑچکیں، لیکن ناراضگی اور مخالفت کی آواز یونیورسٹی میں سخت سے سخت تر ہورہی ہے۔ اسی آواز سے تو مسئلہ ہے۔
میں ملک کی کئی یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس کے ساتھ دو سال تک ربط میں رہا۔ میں اتفاق کرتا ہوں کہ طلبہ کا بڑا حصہ فرقہ پرست بن چکا ہے، لیکن ہنوز اُن میں جمہوریت کی ہلکی روشنی باقی ہے۔ اسی روشنی کی مدد سے وہ سڑکوں پر آکر فیس میں اضافہ کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ کسی دن وہ فرقہ پرستانہ سوچ سے بھی نکل آئیں گے۔ مجھے نوجوانوں سے کئی خطوط موصول ہوتے ہیں ، جو لکھتے ہیں کہ واٹس ایپ یونیورسٹی نے اُن کو فرقہ پرست بنایا۔ وہ پچھتاوے کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ دیکھ پارہے ہیں کہ انڈیا کا مستقبل فرقہ پرستی پر مبنی نہیں ہے۔ وہ 1947ء کی تقسیم نہیں جانتے ہیں لیکن 2019ء کے انتشار کی ہولناک شکل دیکھ رہے ہیں۔ آپ کی غلطی ہے کہ ہندوستان کے نوجوانوں سے دوری اختیار کررہے ہیں۔ اُن کے احساسات کو سمجھ نہیں پارہے ہو۔
آپ نے جامعہ ملیہ میں ابتداء ً دیکھا کہ اسٹوڈنٹس پر مجرمین کی طرح فائرنگ کی گئی۔ اسی جامعہ کی مزید دو تصاویر ہیں۔ شاہین عبداللہ کو بچانے کیلئے عائشہ اور فرزانہ مل کر ڈٹ گئی ہیں۔ لڑکیاں لڑکے کی آڑ بن رہی ہیں۔ عائشہ اور فرزانہ جامعہ کے مجسمہ غالب کے قریب اونچائی پر کھڑی بھی ہیں۔ ایک اور لڑکی چندنا نے لڑکے کا ساتھ دیا۔ یہ تصویر ملک کی ہر یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل کے روم میں آویزاں کرنا چاہئے۔ انڈیا اُن کے خوابوں اور احساسات کی مانند خوبصورت ہوجائے گا۔ اگر آپ نیو انڈیا کو سمجھنا چاہتے ہیں تو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ان دو تصویریں دیکھتے جائیں۔ آپ کو بلاشبہ بہتر احساس ہوگا۔ انڈیا کیلئے نیک تمنائیں!
ravish@ndtv.com