ظلم سہتا ہوا انسان برا لگتا ہے

,

   

کرناٹک ہندوتوا کی تجربہ گاہ … ترنگا کی جگہ بھگوا پرچم
حجاب … اقلیتی ادارے نشانہ پر

رشیدالدین
کرناٹک ان دنوں ہندوتوا کی لیباریٹری بن چکا ہے جہاں ملک میں ہندو راشٹر کے نفاذ کا تجربہ شروع کیا گیا۔ فرقہ وارانہ ایجنڈہ کے ذریعہ مرکز میں دو مرتبہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد بی جے پی تیسری میعاد کی تیاری ابھی سے شروع کرچکی ہے۔ اترپردیش اور دیگر چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات بی جے پی کے لئے ایسڈ ٹسٹ کی طرح ہیں اور اگر یو پی ہاتھ سے نکلتا ہے تو مرکز میں اقتدار کی واپسی خطرہ میں پڑسکتی ہے، لہذا اترپردیش کی انتخابی مہم ملک کے مختلف حصوں سے چلائی جارہی ہے۔ استاد اور شاگرد دونوں نے اپنا کوئی گھر نہیں بسایا، لہذا وہ گھر ، گرہستی اور خاندانوں میں خوشحالی سے واقف نہیں۔ جو شخص خاندان کے دکھ درد سے واقف نہیں، وہ معاشرہ اور سماج کی خوشحالی کے بارے میں کیسے واقف ہوگا؟ مودی اور یوگی نے مرکز اور اترپردیش میں ترقی اور فلاح و بہبود کے عملی اقدامات کے بجائے صرف جملہ بازی اور لفاظی کے ذریعہ ہتھیلی میں جنت دکھانے کا کام کیا۔ اب جبکہ دونوں کی کشتی بھنور میں دکھائی دے رہی ہے تو دونوں نے ہندوتوا ایجنڈہ اختیار کرلیا۔ مرکز میں اقتدار کا راستہ اترپردیش سے ہوکر گزرتا ہے ، لہذا اترپردیش اسمبلی چناؤ میں کامیابی کے لئے سنگھ پریوار اور جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو میدان میں اتارا گیا جو مختلف ریاستوں میں اپنی نفرت بھری مہم کے ذریعہ اترپردیش چناؤ پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔ یہی عناصر صحیح معنوں میں ’’ٹکڑے ٹکڑے گیانگ‘‘ کا حصہ ہیں۔ بی جے پی اور اس کی پالیسیوں کی مخالفت کرنے والوں کو ٹکڑے ٹکڑے گیانگ کا نام دیا گیا جبکہ حقیقت میں یہ گیانگ تو سنگھ پریوار اور اس کے بغل بچے ہیں جو سماج کو مذہبی اساس پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ انتخابات کی مہم کے طور پر مختلف علاقوں میں دھرم سنسد کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف زہرافشانی کی گئی ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکی دی گئی ۔ دھرم سنسد کا زہر جو پھیل چکا تو کرناٹک کو تجربہ گاہ کے طور پر تیار کیا گیا ۔ بی جے پی کا گجرات اور یو پی ماڈل اب پرانا ہوچکا ہے، لہذا کرناٹک ماڈل کو ملک میں پیش کیا جارہا ہے۔ جنوبی ریاستوں میں فرقہ پرستی کا ماحول نہیں تھا لیکن کرناٹک کے ذریعہ ماحول کو زہر آلود کرنے کی منصوبہ بندی ہے، جہاں تک ہندوتوا ایجنڈہ کے نفاذ کا معاملہ ہے ، بی جے پی زیر ا قتدار ریاستوں میں دوڑ شروع ہوچکی ہے۔ حکومت میں شامل افراد کے ذریعہ متنازعہ بیانات دیئے جارہے ہیں تاکہ ایک عام شخص کے ذہن کو فرقہ پرستی سے آلودہ کردیا جائے۔ ملک کی تاریخ اور خاص طور پر جدوجہد آزادی کے جانباز مجاہدین کے کارناموں کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کی گئی۔ کھلے عام ناتھورام گوڈسے کی تائید کی جانے لگی۔ گاندھی جی کے قتل کو حق بجانب قرار دیا گیا اور قاتل کو فریڈم فائٹر کہا گیا لیکن نریندر مودی کی پیشانی پر بل نہیں آیا ۔ مودی ہو یا امیت شاہ انہیں تو اس بات کا اطمینان ہے کہ ہندتوا ایجنڈہ کی تکمیل ہورہی ہے ۔ تذکرہ ہندوتوا کی نئی تجربہ گاہ کرناٹک کا چل رہا تھا ۔ لو جہاد ، تبدیلیٔ مذہب ، گاؤ کشی اور ٹیپو سلطان جینتی پر تنازعہ کے بعد حجاب پر پابندی عائد کی گئی۔ حجاب کا تنازعہ ابھی تھما نہیں تھا کہ ریاستی وزیر کے ایس ایشورپا نے قومی پرچم ترنگا کے بجائے بھگوا پرچم کو لال قلعہ سے لہرانے کی بات کہی ۔ ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں بھگوا پرچم ترنگا کی جگہ لے گا ۔ معاملہ صرف بیان تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک اور وزیر اشوت نارائن نے ان کی تائید کرتے ہوئے بی جے پی کے عزائم کو ظاہر کردیا ہے۔ کانگریس ارکان اسمبلی نے ریاستی وزیر کی برطرفی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایوان اسمبلی میں رات بھر دھرنا منظم کیا۔ بی جے پی قائدین کا کہنا ہے کہ ترنگا کی فوری تبدیلی کا امکان نہیں بلکہ یہ مستقبل کے بارے میں پرامید ہونے کا اشارہ ہے۔ دراصل مستقبل کے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے نئی نسل کے ذہنوں کو ابھی سے بھگوا رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ دستور بدلنے کی آوازوں کے درمیان قومی پرچم کی تبدیلی کے عزائم محض جذباتی یا اتفاقی نہیں ہیں بلکہ عوام کو ذہنی طور پر تیار کرنے کی کوشش ہے۔ آج پرچم کی تبدیلی کے بیان پر کارروائی نہیں کی گئی اور ملک خاموش رہا تو کل قومی ترانہ بھی تبدیل کردیں گے ۔ راج گھاٹ کے بجائے ناتھورام گوڈسے گھاٹ تعمیر کر کے اسے بابائے قوم کا اعزاز دیا جائے گا ۔ دستور سے لفظ سیکولر حذف کرتے ہوئے ہندو راشٹر کا اضافہ کردیا جائے گا ۔ یہ تمام باتیں آر ایس ایس کی طویل مدتی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ ملک میں دستور ، قومی پرچم ، گاندھی جی کی توہین کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ اگر کوئی اور اس طرح کا بیان دیں تو وطن سے غداری کا مقدمہ درج کر کے جیل بھیج دیا جاتا ہے ۔ مخالف این آر سی احتجاج کے دوران طلبہ قائدین اور جہد کاروں نے غربت ، افلاس ، بیروزگاری ، فرقہ پرستی ، ذات پات اور ظلم و تشدد سے آزادی کا نعرہ لگایا تو علحدگی پسندگی کا الزام عائد کرتے ہوئے دیش دروہی کا مقدمہ درج کیا گیا ۔ طلبہ اور جہد کار کئی ماہ سے جیلوں میں بند ہیں اور عدلیہ ضمانت سے انکار کر رہی ہے۔ دیش دروہی مقدمہ کے اصل حقدار تو وہ لوگ ہیں جو ناتھورام گوڈسے کو مجاہدین آزادی اور ترنگا کو بدلنے کی بات کر رہے ہیں۔ ہریانہ ، یو پی اور مدھیہ پردیش کے کئی بی جے پی قائدین شریعت اور اسلام کے خلاف بیانات کے لئے مشہور ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کو پاکستان بھیج دینے کی دھمکی دی ہے۔ ہندوستان میں مسلمان کسی کے رحم و کرم یا احسان کے تحت نہیں ہے بلکہ برابر کے حصہ دار ہیں۔ ملک کے وسائل میں مسلمانوں کو بھیک نہیں بلکہ حصہ داری اور ساجھیداری چاہئے ۔ ہم اپنا حصہ حاصل کرنا اچھی طرح جانتے ہیں ۔ مسلمان کوئی خس و خاشاک نہیں کہ اٹھاکر ملک کے باہر کردیا جائے ۔ مسلمان تو مرنے کے بعد بھی دو گز زمین کا مالک ہوتا ہے جبکہ حب الوطنی کے جھوٹے دعویداروں کے چتا کی راکھ ندیوں اور تالابوں سے بہہ کر نہ جانے پاکستان یا کسی اور ملک کو چلی جاتی ہے۔ ملک کے چپہ چپہ پر ہماری عظمتوں کے نشان ہیں۔ دنیا بھر سے سیاح تاج محل ، قطب مینار ، چارمینار اور دیگر تاریخی عمارات دیکھنے کیلئے آتے ہیں جو ہمارے اسلاف کی یادگار ہیں۔ ہندوستان کا تصور مسلمانوں کی نشانیوں کے بغیر ادھورا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ تعمیر وطن پر مسلمان برابر کے شریک کچھ اس طرح ہیں کہ تم در و دیوار ہو تو بنیاد ہیں ہم ۔
کرناٹک میں حجاب کے مسئلہ پر ہائی کورٹ میں سماعت جاری ہے کہ اچانک ایک نئی شر انگیزی کرتے ہوئے اقلیتی تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ محکمہ اقلیتی بہبود نے سرکولر جاری کرتے ہوئے تمام اقلیتی تعلیمی اداروں میں حجاب اور کسی بھی مذہبی شناخت پہننے پر پابندی عائد کردی ہے۔ حکومت نے تمام تعلیمی اداروں کیلئے پہلے ہی احکامات جاری کئے تھے، ایسے میں اقلیتی اداروں کے لئے علحدہ احکامات کی کیا ضرورت تھی ۔ یہ دراصل اقلیتی اداروں کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے تاکہ انہیں ذہنی طور پر خوفزدہ کیا جاسکے۔ اقلیتوں اور خاص طور پر لڑکیوں کو تعلیم سے دور کرنے کیلئے حجاب کا تنازعہ پیدا کیا گیا۔ جب سے یہ معاملہ ہائی کورٹ میں پہنچا ہے ، سماعت جاری ہے اور غیر ضروری طور پر طوالت کے نتیجہ میں شرپسندوں کو مزید موقع مل رہا ہے ۔ حجاب دراصل شریعت کا حصہ ہے جس کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے۔ ہندوستان کا دستور ہر شخص کو اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ ایسے میں عدالت میں حجاب کے مسئلہ پر طویل مباحث کی ضرورت نہیں تھی۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدلیہ کو فوری طور پر مذہبی آزادی کے حق کو بحال کرتے ہوئے اس تنازعہ کا خاتمہ کرنا چاہئے ۔ لباس اور غذا ہر شخص کا انفرادی اختیار ہے۔ دنیا بھر میں اس حقیقت کو مخالفین اسلام بھی تسلیم کرچکے ہیں کہ حجاب دراصل عورت کی شرم و حیا کی علامت اور عفت اور عصمت کی حفاظت کا ضامن ہوتا ہے۔ صرف مسلمانوں کے حجاب پر اعتراض کرنے والے اکثریتی طبقات میں گھونگٹ اور ڈوپٹہ کے استعمال پر اعتراض کر کے دکھائیں، آج بھی پنجاب ، راجستھان ، مدھیہ پردیش اور شمال مشرقی ریاستوں میں خواتین کیلئے گھونگٹ زندگی کا لازمی جز ہے اور کسی میں ہمت نہیں کہ اس پر پابندی عائد کرے۔ انہیں تو صرف مسلمان اس لئے بھی کھٹک رہے ہیں کیونکہ لڑکیوں نے باحجاب رہ کر زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کی منزلوں کو طئے کیا ہے۔ حجاب پر تنازعہ کا مقصد طالبات کو اسلام کے ساتھ ساتھ تعلیم سے دور کرنا ہے ۔ قابل مبارکباد ہیں وہ لڑکیاں جنہوں نے کلاسس اور امتحانات کے بائیکاٹ کو ترجیح دی لیکن شریعت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ طالبات نے دنیاوی تعلیم پر حجاب کو ترجیح دیتے ہوئے اسلامی حمیت کا ثبوت دیا ہے ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ملک بھر میں حجاب کی تائید میں خواتین میدان ہیں لیکن خواتین کے حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کا دعویٰ کرنے والی تنظیمیں اور جہد کار خاموش ہیں۔ بے حیائی کو عام کرنے کا معاملہ آتا ہے تو یہ روشن خیال اور ترقی پسند جہد کار میدان میں آجاتے ہیں۔افسوس تو ان مسلم قیادتوں پر ہوتا ہے جو مسلمانوں کی نمائندگی کا دم تو بھرتے ہیں لیکن خواتین کی تائید میں میدان عمل میں آنے کیلئے تیار نہیں۔ تسلیمہ نسرین جیسی اسلام بیزار اور بے حیائی کو فروغ دینے والی گستاخ رسول نے بھی حجاب کے خلاف آواز اٹھاکر ہندوتوا کی مدد کی ہے۔ پاکستان سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ہندوستان میں پناہ لینے والا طارق فتح بھی گودی میڈیا کے چیانلس پر شریعت کے خلاف بکواس کر رہا ہے۔ان دونوں کو ہندوتوا طاقتیں شریعت کے خلاف استعمال کر رہی ہیں۔ منظر بھوپالی نے موجودہ صورتحال پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
سچ کہوں مجھ کو یہ عنوان بُرا لگتا ہے
ظلم سہتا ہوا انسان برا لگتا ہے