عثمانیہ جنرل اسپتال کے تحفظ کا وعدہ ریاستی حکومت پورا کرے

   

سارہ میتھیوز
ریاست تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات سارے ملک میں توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے، انتخابی عمل سے لیکر رائے دہی کے عمل کو بھی بڑی دلچسپی سے دیکھا گیا اور جب اسمبلی انتخابات کے نتائج کا دن یعنی 3 ڈسمبر 2023 آیا تب اس سوال کو لیکر عوام کا تجسس بڑھ گیا کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا؟ بی آر ایس کامیاب ہوگی یا کانگریس کی جیت ہوگی؟ ۔ بہرحال نتائج کا اعلان ہوا جس پر کئی لوگوں نے راحت کی سانس لی۔ یہ وہ لوگ تھے جو شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کے دامن میں موجود تاریخی آثار کے تحفظ میں مصروف ہیں جو چاہتے ہیں کہ فنِ تعمیر کی شاہکار ان عمارتوں کا تحفظ کیا جائے، انہیں تعصب و جانبداری کی بھینٹ چڑھانے سے گریز کیا جائے۔ حیدرآبادی تہذیب و تمدن اور اس کی ثقافت کے ساتھ ساتھ گنگا جمنی تہذیب کے تحفظ میں مصروف شخصیتوں نے ریاست میں کانگریس کی کامیابی پر یہ سوچ کر راحت کی سانس لی کہ اس شہر کی مشہور و معروف اور تاریخی عمارت ’’ عثمانیہ جنرل اسپتال ‘‘ کو ایک اور نئی زندگی مل گئی ہے، اب اس خوبصورت انڈور سارنیٹک طرزِ تعمیر کی تاریخی عمارت کومنہدم کرنے کے بارے میں کوئی نہیں سوچے گا جیسا کہ سابق میں بی آر ایس حکومت نے سوچا تھا، اور باضابطہ اعلان کیا تھا کہ وہ عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کی عمارت کو منہدم کرکے وہاں نئی عمارت تعمیر کروائے گی۔ یہ عمارت یقیناً بی آر ایس حکومت میں خطرہ سے دوچار تھی اور اس پر منہدم کئے جانے کے خطرات منڈلا رہے تھے۔
کانگریس حکومت آنے کے بعد تاریخی و تہذیبی آثار کے تحفظ میں مصروف جہد کاروں نے اگرچہ راحت کی سانس لی ‘ لیکن اس وقت ان جہد کاروں اور عوام کو جھٹکا لگا جب ریاستی ایڈوکیٹ جنرل نے ریاستی حکومت کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے عدالت کو صاف صاف طور پر بتایا کہ جب تک تاریخی آثار میں شامل عثمانیہ جنرل اسپتال کی موجودہ عمارت کو منہدم نہیں کیا جاتا تب تک نئی عمارت ( اسپتال کی نئی عمارت کی تعمیر ) نہیں کی جاسکتی۔ اس بارے میں حکومت کے ایڈوکیٹ جنرل کا یہ استدلال ہے کہ موجودہ عمارت انتہائی شکستہ اور بوسیدہ حالت میں اور غیر محفوظ ہے اور ایسے میں وہاں کوئی ایسی خالی جگہ نہیں جہاں اسپتال کیلئے نئی عمارت تعمیر کی جاسکے۔ حکومت کی اس دروغ گوئی پر تاریخی آثار کے چاہنے والے اور کٹر حیدرآبادی تنگ آچکے ہیں، وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ایڈوکیٹ جنرل کس طرح عدالت کو یہ کہتے ہوئے گمراہ کرسکتے ہیں کہ موجودہ اسپتال کے قریب ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں اسپتال کی نئی عمارت تعمیر کی جاسکے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عثمانیہ جنرل اسپتال کی جو موجودہ عمارت ہے وہ 2.5 ایکڑ اراضی پر محیط ہے جبکہ اسپتال کی نئی عمارت کی تعمیر کیلئے ایک یا دو ایکڑ نہیں بلکہ 24.5 ایکڑ اراضی دستیاب ہے۔ مثال کے طور پر دھوبی گھاٹ، پرانا مردہ خانہ، کینٹین، پولیس اسٹیشن، پی ڈبلیو ڈی آفس، جیل وارڈ، ہاسٹل وغیرہ کی عمارتیں جو 24.5 ایکڑ اراضی پر موجود ہیں انہیں منہدم کیا جاسکتا ہے جس سے جدید اسپتال کی ایک عظیم الشان عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے۔
جہاں تک ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کا سوال ہے حیدرآباد نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ اس کے دامن میں موجود کئی تاریخی عمارتوں یا آثار کو ترقی کے نام پر منہدم کردیا گیا یا پھر اسے لینڈ گرابنگ ( زمینات پر ناجائز قبضوں ) کے ذریعہ تباہ و برباد کرکے ان کے نام و نشان مٹادیئے گئے۔ وہ عمارتیں صرف ماضی کی داستان بن کر رہ گئیں۔ ایسے میں ہم تمام حیدرآبادیوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ جو کچھ تھوڑا بہت بچ گیا ہے اس کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ سال 2019 میں ہائی کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے شہر کی انتہائی خوبصورت و دلکش تاریخی عمارت ایرم منزل پیالیس کو منہدم کرنے سے حکومت کو روک دیا، اسی طرح ہائی کورٹ نے سابق چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے اس خواب کو چکنا چور کردیا تھا کہ وہاں ( ایرم منزل جیسے خوبصورت پیالیس ) کی قبر پر واستوکے عین مطابق سکریٹریٹ؍ اسمبلی تعمیر کریں‘ اس وقت بھی کے سی آر حکومت کی جانب سے ریاستی ایڈوکیٹ جنرل نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ ایرم منزل پرپیالیس کی عمارت شکستہ ہوگئی ہے اور بوسیدگی کا شکار ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بھٹی وکرامارکا جو اُس وقت کانگریس لیجسلیچر پارٹی کے لیڈر تھے اور ایرم منزل کو منہدم کئے جانے سے متعلق کے سی آر حکومت کے منصوبوں کی شدت سے مخالفت کررہے تھے، ہائی کورٹ کے فیصلہ کا یہ کہتے ہوئے خیرمقدم کیا تھا کہ یہ فیصلہ ریاستی حکومت کے چہرہ پر ہائی کورٹ کا ایک زوردار طمانچہ ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ عدالت نے کے سی آر حکومت کے کان کھینچے، اس پر شدید تنقید کی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ملک کے قانون کو نہیں اپنارہے ہیں، یہ آمرانہ حکمرانی کے سوائے اور کچھ نہیں یہ خود عدالت نے ریمارکس کئے تھے۔ میں ڈپٹی چیف منسٹر بھٹی وکرامارکا کو یہ یاد دلانا چاہتی ہوں کہ سَر ! اب ریاست میں آپ ( کانگریس ) کی حکومت ہے، بحیثیت ڈپٹی چیف منسٹر آپ کو تلنگانہ کے تاریخی آثار بالخصوص عثمانیہ جنرل اسپتال کے تحفظ کیلئے سرگرم کردار ادا کرنا چاہیئے۔ ایک اور بات حیدرآباد کے شہریوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ نئی حکومت کو کئی ایک مسائل کا سامنا ہے، سابقہ حکومت سے اسے بہت کچھ پریشانیاں ملی ہیں۔عزت مآب چیف منسٹر کو یاد دلانا ٹھیک نہیں ہوگا کہ کانگریس پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں عثمانیہ جنرل اسپتال کے تحفظ اور اس کی عظمت رفتہ بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ہم عوام کانگریس کے انتخابی منشور میں کئے گئے وعدے کو یوں ہی نہیں لیتے اور سمجھتے ہیں کہ حکومت بھی حکمراں پارٹی کے وعدے کو فراموش نہیں کرے گی۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عثمانیہ جنرل اسپتال کو جان بوجھ کر اس اُمید میں شکستہ حالت میں چھوڑدیا گیا کہ رئیل اسٹیٹ کی بڑی مچھلیوں کو اس سے فائدہ ہوگا۔ حکومت کو چاہیئے کہ تاریخی آثار کی فہرست میں شامل اس عمارت کی مرمت کرے، تزئین نو کرتے ہوئے اسے طبی عجائب گھر ( میوزیم آف میڈیسن ) میں تبدیل کردے کیونکہ اس اسپتال کی ایک شاندار تاریخ ہے۔ اگر کسی نے لندن کا دورہ کیا ہو تو اس نے ضرور دیکھا ہوگا کہ عثمانیہ جنرل اسپتال سے قدیم اور شکستہ عمارتوں کا وہاں نادر و نایاب اور تاریخی عمارتوں اور تہذیبی و تعمیری آثار کے طور پر تحفظ کیا گیا ہے جو اس بات کی بہترین مثال ہے کہ کس طرح ترقی اور ہیرٹیج پُرامن بقائے باہم کے ساتھ موجود رہ سکتے ہیں۔ اُمید ہے کہ حکومت تلنگانہ عثمانیہ جنرل اسپتال سے کافی عرصہ سے جاری خطرناک ناانصافی کے بارے میں نہ صرف بیدار ہوگی بلکہ 12 فروری 2024 کو قطعی سماعت تک اپنی غلطی سدھارے گی، یہ دن دور نہیں بالکل قریب ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاستی حکومت عقلمندی کا ثبوت دیتی ہے یا پھر سابقہ بی آر ایس حکومت کے نقش قدمپر چل کر تاریخی آثار کی تباہی کا سامان کرتی ہے۔