عثمانیہ یونیورسٹی سے متصل تاریخی بستیوں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان

,

   

پانی اوربرقی سربراہی روک دی گئی‘ گندے نالوں سے تعفن‘ برقی بل کی ادائیگی کے لئے یونیورسٹی کا زور‘ مقامی لوگو ں کی پریشانی میں ائے دن اضافہ

بلدی برقی آبرسانی کے ساتھ ساتھ‘ بہتر تعلیمی اورطبی سہولتیں ہر شہری کا بنیادی حق ہیں۔ حکومت او رمجالس مقامی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کے بغیر شہریوں کو ان کی بنیادی حقوق فراہم کری۔

گریٹر حیدرآباد کے بیچوں بیچ ایسی ہی نو بستیاں ہیں جہاں پر کئی سالوں سے بنیادی سہولتیں ندارد ہیں۔

تاریخی عثمانیہ یونیورسٹی کے گردو نواح میں یہ بستیاں اس وقت بسائی گئی تھیں جب یونیورسٹی کی تعمیراس سے متعلق مختلف امور کی انجام دہی کے لئے مزدور پیشہ طبقے کو یہاں پرلاکر آباد کیاجاسکے۔

ہوا بھی کچھ اس طرح ہی تھااور یہاں پر ایسے مزدور پیشہ افراد کو لاکر بسایاگیا جویونیورسٹی کی تعمیر سے لے کردیگر امور کو انجام دے سکیں۔یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ ان بستیوں کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے۔

وہ مزدور پیشہ افرادجو یہاں ابتداء میں آکر بسے تھے ان کی نسلیں پروان چڑھیں اور تعلیم حاصل کرتے ہوئے وہ اسی عثمانیہ یونیورسٹی میں تیسرے اورچوتھے درجہ کے ملازمت اختیار کی جس میں یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کی صفائی‘ فائیلوں کے تبادلے‘ ہاسٹلس میں پکوان جیسے امور شامل رہے ہیں۔

مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ شہر کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان بستیوں کی پسماندگی میں روز بہ روز اضافہ ہوتار ہا ہے۔ایسے نو بستیاں جن کے نام انگڑی بازار‘نرسری گارڈن‘ اولاڈ ڈائری فارم‘ جامعہ عثمانیہ‘ وی سی لاج بستی‘ کیمپ نمبر3‘ کیمپ نمبر4‘ کیمپ نمبر5‘ کیمپ نمبر6بستی ہیں جو ابتدائی دور سے ڈرنیج سسٹم سے محروم ہیں۔

حالانکہ شہر حیدرآباد جو اب گریٹر حیدرآباد میں تبدیل ہوگیاہے‘ کسی زمانے میں یہ علاقہ حیدرآباد کا مضافات کھیلا جاتاتھا مگر شہر کی توسیع ہونے کے بعد اب یہ شہر کے بیچوں بیچ ہے۔

ان بستیوں میں نہ تو میٹھے پانی کی لائن ہے او رنہ ہی ڈرنیج لائن موجود ہے۔گھروں کے سامنے سے کچی موریاں بہہ رہی ہیں جس کی وجہہ سے معصوم بچوں کی صحت پر اثر بھی پڑرہا ہے۔

ایک انگن واڑی اُردو اورانگریزی میڈیم اسکول بھی چل رہا ہے جس میں کافی تعداد میں بچہ تعلیم حاصل کررہی ہے مگر اس کے سامنے سے کچی موری بہہ رہی ہے اوراسکول میں برقی ندارد ہے۔

دوسرے اسکولوں کو جانے والے طلبہ گھروں کے باہر بیٹھ کر اپنے اسکول ورک کوانجام دے رہے ہیں۔رات میں یہاں کے لوگ موم بتیوں اورچراغ کے سہارے زندگی گذاررہے ہیں۔

مذکورہ بستیوں کو جانے والے تمام راستے بدترین خستہ حالی کاشکار ہیں۔ان سڑکوں پر گاڑیوں سے گذرنے سے تو دور پیدل چلنا بھی دشوار ہے۔جبکہ کیمپ نمبر3اور 6بستی میں پچھلے 25سے 30دنو ں برقی کی سربراہی روک دی گئی ہے۔

اس کی وجہہ برقی بل بتایاجارہا ہے۔حالانکہ یہاں پر کوئی علیحدہ برقی ٹرانسفارمرس ان کی بستیوں کو برقی کی سربراہی کے لئے آج تک نصب نہیں کئے گئے ہیں۔

یونیورسٹی انتظامیہ برقی بل کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے اور چونکہ یہاں پر رہنے بسنے والوں کی اکثریت یونیورسٹی میں ہی ملازم ہے تو برقی بل کی ادائیگی کا بھی اصرار یونیورسٹی کی جانب سے کیاجارہا ہے۔

ان بستیوں میں رہنے والوں کی اکثریت پیشہ وار مزدور ں کی ہے جس میں یونیورسٹی میں کام کرنے والوں کی تنخواہیں 6سے 7ہزار روپئے ہے او رماباقی یومیہ اجرت پر کام کرتے ہوئے اپناگھر چلاتے ہیں۔

ایسے میں تقریبا ایک ماہ قبل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹررویندر یادو نے ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے کیمپ بستی نمبر چار کو 8لاکھ روپئے برقی بل ادا کرنے کا استفسار کیا۔ اور بستی کی دیوار پر نوٹس بھی چسپاں کردی۔

ماضی میں کبھی بھی یونیورسٹی کی جانب سے اس طرح کا اصرار نہیں ہوا ہے اور جب کبھی برقی بل یہاں کے مکینوں کودیا گیا اس کو فوری ادا بھی کردیاگیاتھا۔

مگر اچانک وی سی کی نوٹس کے بعد یومیہ اجر ت پرکام کرنے والے ان بے سہارا بور بے بس افرادکی ہوش اڑ گئے۔آج بھی اس بستے کے لوگ واجبی برقی بل ادا کرنے کے لئے رضامند ہیں مگر وائس چانسلر اٹھ لاکھ روپئے بل ادا کرنے پر زوردے رہے ہیں۔

YouTube video

بل کی عدم ادائیگی کی وجہہ سے ایک ماہ کے قریب عرصہ سے یہاں کے لوگ رات میں اندھیرے میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

حالانکہ یہ ایک رہائشی بستی ہے مگر یونیورسٹی کی ریفرنس سے کمرشل بل کے طور پر برقی بل کی ادائیگی کا ان مکینوں پر زوردیاجارہا ہے۔

اس برقی کٹوتی کے زد میں علاقے کے مذہبی مقامات بھی آگئے ہیں جہاں سے برقی بل نہیں لانے کا شہری اور ریاستی منتظمین دعوی کرتے ہیں۔

معصوم بچوں کے ساتھ ایسی بستی میں جس کے اطراف واکناف گھنا جنگل ہے‘ زہریلی جانوروں کا خطرہ ہے بناء لائٹ کے زندگی بسر کرنا گویا اپنے ساتھ ساتھ ان معصوم بچوں کی زندگی کے ساتھ بھی کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے۔

اس پر سے ستم ظریفی یہ ہے کہ اس علاقے کے راستے بند کردئے جارہے ہیں۔ کئی مقامات پر راستے میں گہرے گڑھے کھود کر آمد رفت کو مسدود کردیاگیاہے۔

اس بستی سے حبشی گوڑا جانے والے راستے پر بلدیہ شہر کا کچرا جمع کرنے کا کام کررہا ہے۔شہر کے مختلف حصوں سے آنے والی کچرے کی گاڑیاں اس سڑک پر لاکر کچرا ڈال رہی ہیں۔

چند دن قبل ایک نوجوان کی موت سانپ کے کاٹنے سے ہوئی جبکہ ایک حاملہ عورت گڑھے اورکھڈوں سے رات کے اندھیرے میں اسپتال جارہی تھی‘ جھٹکوں کی وجہہ سے اسپتال پہنچنے تک اس کی بھی موت واقع ہوگئی۔

ایک معمر شخص کی موت بھی اس بستی میں وبائی بیماری کی وجہہ سے ہوئی ہے۔ حالانکہ ان بستیوں کے متاثرین نے انسانی حقو ق کمیشن کا بھی دروازہ کھٹکھٹایاتھا مگر ایچ آر سی کی نوٹس بھی یونیورسٹی انتظامیہ پر اثر اندازنہیں ہوسکی بلکہ ان لوگوں پر شکنجہ کسنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جو ان پسماندگی کاشکار بستیوں کو منظرعام پر لانے کاکام کررہے ہیں۔

ان بستیوں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ مشکل حالات کے باوجود بھی ہم اس مقام کوچھوڑ کر نہیں جارہے ہیں کیونکہ یہاں سے ہمارے اجداد کی یادیں وابستہ ہیں اور بڑھتی مہنگائی کے اس دور میں باہر میں اونچے کرایوں کے مکان میں نہیں رہ سکتے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ گھریلو ٹیرف کے ساتھ دئے جانے والے برقی بل ادا کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ گھنے جنگل کی طرف جنگلی جھاڑوں میں گھیری ہوئی ان بستیوں کے اسٹریٹ لائٹس تک راتوں میں گل کردئے جاتے ہیں۔

ان بستیوں میں مشترکہ آبادیاں ہیں جونہایت امن وسکون‘ پیار ومحبت کے ساتھ برسوں سے زندگی گذار رہے ہیں۔

ان بستیوں کے مکینو ں کے پاس ادھارکارڈ‘ راشن کارڈ بھی موجود ہے اور ایسے کوئی شواہد موجود ہیں جس سے وہ ثابت کرسکتے ہیں کہ سالوں سے وہ اور ان کے اجداد ان ہی بستیوں کے مکین ہیں اس کے باوجود بھی ان کا کہنا ہے کہ ہم ان بستیوں میں قابض نہیں ہوں گے اوراگر ضرورت پڑتی ہے تو یونیورسٹی ذمہ داران کوایسا ایک حلفیہ بیان بھی تحریر کرکے دیں گے۔

ان کی گوہار برقی کی بحالی‘ کچرے کی صفائی اور پینے کے پانی کی موثر سربراہی ہے۔

ریاستی اور شہری انتظامیہ پر اس بات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسی بستیوں کوبنیادی سہولتوں سے آراستہ کرتے ہوئے یہاں پر زندگی بسر کرنے والے شہریوں کے احساس کمتری کو دور کریں۔

رہائشی بستیوں میں کمرشیل بل کی ادائیگی کے اصرار کے بجائے انہیں رعایت فراہم کریں تاکہ وہ اپنااور اپنے بچوں کی بہتر مستقبل کے لئے کچھ سونچ سکیں۔