عجیب لوگ ہیں سایہ تلاش کرتے ہیں

   

جے این یو سابق اِسٹوڈنٹ لیڈ ر عمر خالد سے خصوصی بات چیت

سید اسماعیل ذبیح اللہ

پچھلے چھ ماہ میںملک کے حالات تیزی کے ساتھ بدلے ہیں‘ نریندر مودی حکومت کی دوسری معیاد کا پہلا بجٹ اجلاس جس سے ظاہر ہوگیاہے وہ مستقبل میںکیا کرنے والے ہیں‘ کروڑ ہا روپئے ریزو بینک سے نکالا جارہا ہے اور کارپوریٹ گھرانوں کے قرض معاف کئے جارہے ہیں‘ اس پر کوئی بولنے والا نہیںہے‘ ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ غربت ‘ بے روزگاری آج کی تاریخ میںہے مگر ان تمام مسائل کو درکنار کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) راشٹرواد( حب الوطنی) کو بنیاد بناکر تین ریاستوں کے مجوزہ اسمبلی انتخابات میدان میںاترنے کی تیاری کررہی ہے ۔ دراصل ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ معاشی میدان میں اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری کو تسلیم کرتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی تیار کی جائے مگر پچھلے چھ سال میںجس نے بھی ملک کی معیشت‘ بے روزگاری ‘ نوجوانوں کے مستقبل اور کارپوریٹ گھرانوں کو فراہم کی جانے والی مرعات پر سوال کھڑا کیاتو اس کو ملک کاغدار قراردیاجانے لگا ۔جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق اسٹوڈنٹ لیڈر اور فارغ التحصیل ڈاکٹر عمر خالد نے ملک کے موجودہ حالات پر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہاکہ اپوزیشن پر عوامی مسائل کے خلاف متحد ہ طو رسے سڑک پر اُتر کر احتجاج کرنے کی بھی ذمہ داری عائدہوتی ہے مگر اپوزیشن کی مجرمانہ خاموشی کی وجہہ سے حکمران جماعت کے حوصلوں کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ عمر خالد نے پچھلے لوک سبھا الیکشن میںکانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوںپر نرم ہندوتوا کے جھانسے میںآکر سکیولر ووٹرس سے دور ہوجانے کا ذمہ دار بھی ٹہرایا۔ انہوں نے کہاکہ کانگریس کے پاس ( نیائے) اسکیم تھی جو کافی فائدہ مند ثابت ہوسکتی تھی مگر کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی نے ہی اس کا بات کا اعتراف کرلیا ہے کہ مذکورہ اسکیم کو عوام تک پہنچانے میںکانگریس کے علاقائی قائدین پوری طرح ناکام رہے۔ عمر خالد نے کہاکہ لوک سبھا الیکشن سے قبل حالانکہ کانگریس پارٹی نے تین ریاستوں میںاپنی واپسی کی تھی مگر اس کامیابی کو بھی لوک سبھا الیکشن میںاستعمال کرنے سے کانگریس پارٹی قاصر رہی ۔ عمر خالد نے کہاکہ پچھلے پانچ سالہ کا دور حکومت ہو یا پھر دوبارہ اقتدار میںآنے کے بعد پہلے بجٹ اجلاس میںجس طرح کے فیصلے لئے گئے ہیںنریندرمودی کی زیرقیادت مرکزی حکومت کی منشاء کیا ہے۔ خالد نے کہاکہ اپوزیشن پارٹیاں کے رویہ سے ایسا محسوس ہورہا ہے وہ الیکشن سے قبل عوامی مسائل کے حل کے لئے سڑکوں پر نہیںاتریں گے ۔انہوں نے کہاکہ جس طرح اپوزیشن کو بی جے پی ڈھالنا چاہتی تھی وہ اس میںپوری طرح کامیاب رہی ہے ۔ انہو ںنے کہاکہ آزادی کے بعد کانگریس نے اپنی تاریخ میںکبھی بھی جنیو دھاری( برہمن کی جسم سے لپٹی ہوئی ڈوری) کا ذکر نہیں کیاتھا ۔ گجرات کے اسمبلی الیکشن سے کانگریس نے خود کو نرم ہندوتو ا کے طرف موڑ لیاجس کا فائدہ بی جے پی کو ہوا ۔ انہوں نے کہاکہ اگر ملک کی عوام کسی ہندو کوووٹ دے گی اس سونچ کے ساتھ کانگریس پارٹی نے اپنے رویہ میںتبدیلی لائی ہے تو اس کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ فی الحال ملک میں بی جے پی سے بڑی ہندو پارٹی کوئی نہیں ہے ۔
انہوں نے کہاکہ پورے لوک سبھا الیکشن میں سکیولر لفظ کہیں سننے کو نہیںملا‘ تمام سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم خود کو سب سے بڑاہندو پیش کرنے میںگذر گئی اور نتائج وہی آئے جو بی جے پی نے اپنے اسکرپٹ میںتیار کئے تھے۔ عمر خالد نے کہاکہ 1984کے سکھ فسادات پر بی جے پی نے کانگریس سے معافی مانگنے کا اصرار کیا اور کہاکہ سکھو ں کے قتل عام کی کانگریس ذمہ دار ہے جس کو سکھوں سے معافی مانگنے کی ضرورت ہے مگر افسوس تو اس بات کا ہے کانگریس یا دوسری سیاسی جماعتوں نے 2002کے گجرات فسادات پر بی جے پی اور نریندر مودی اور امیت شاہ سے معافی کی مانگنے کا مطالبہ نہیں کیا ۔عمر خالد نے کہاکہ اپوزیشن جماعتیں بالخصوص کانگریس نے لوک سبھا الیکشن کے دوران الائنس کے معاملات میںکسی بھی ریاست میںایک قدم پیچھے ہٹنے کوتیار نہیں دیکھائی دے رہی تھی جبکہ بی جے پی جو اقتدار میںتھی وہ اتحاد کی برقراری اور نئے الائنس کی تیاری کے لئے ایک کیاد وقدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار تھی ۔ خالدنے کہاکہ کانگریس کو اپنے رویہ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہاکہ یہی رویہ لوک سبھا الیکشن میں کانگریس کے بشمول دیگر اپوزیشن جماعتوں کی شکست کا سبب بنا ۔ کیونکہ بی جے پی نے یہ رحجان دینے کی کوشش کی یہ کانگریس اور اپوزیشن جماعتیں محض کرسی یا پھر اس کو اقتدار کہیں حاصل کرنے کے لئے کوشش کررہی ہیں عوام مسائل سے انہیں کوئی دلچسپی نہیںہے اس کے برخلاف الائنس کے ساتھ بی جے پی کا رویہ اقتدار کے لئے نہیںبلکہ ملک کی تعمیر کے مقصد سے ہے ۔ اس طرح کا رحجان عوام میںپیش کرتے ہوئے اپوزیشن کو اقتدار کا بھوکا ثابت کرنے میں بی جے پی پوری طرح کامیاب رہی ہے۔ اور عوام کو یہ بتایا کہ اپوزیشن جماعتیں الیکشن کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں۔۔عمر خالد نے کہاکہ آرٹیکل370کی برخواستگی اور جموں کشمیر کے خصوصی درجہ کو برخواست کرنا بی جے پی کا ایک دیرینہ خواب تھا ۔ آر ایس ایس کی سونچ کے مطابق کام کرتے ہوئے مرکز کی نریندر مودی حکومت نے آرٹیکل370کی برخواستگی کے ذریعہ اس بات کو اور پختہ کردیاہے وہ اس ملک کے مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی تیاری کرچکے ہیں۔انہوںنے کہاکہ آرٹیکل370کی برخواستگی ہو یاپھر طلاق ثلاثہ کو غیرقانونی قراردینے کا فیصلہ ہو ۔ بی جے پی اس طرح کے فیصلے جس پر ان کی بنیادیں ٹکی ہوئی ہیںاس کے ذریعہ اپنی سیاسی زمین کو مزید مضبوط کررہی ہے اور اپوزیشن جماعتیں جن کی پہچان سکیولر زم ہے وہ بی جے پی کے تیار کردہ جال میںپھنس کر اپنے سیاسی اصولوں کے عین خلاف ہوگئے ہیں۔بی جے پی ان فیصلوں کو آنے والے ہر الیکشن میں استعمال کرے گی اور اس کی شروعات امیت شاہ نے مہارشٹرا کے اسمبلی انتخابات کی مہم شروع کرنے کے ساتھ ہی کردی ہے اور ہر جگہ بی جے پی ارٹیکل370کی برخواستگی کو اپنی سب سے بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرنے میںکسی قسم کی کوتاہی نہیںبر ت رہے ہیں۔حالانکہ جہاں پر کھڑے ہوکر مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ نے جئے جوان کانعرہ لگایا اور مہارشٹرا اسمبلی الیکشن کی انتخابی مہم کا آغاز کیاتھا وہ بھول گئے کہ ہم جئے کسان کا نعرہ بھی لگاتے ہیں جو اسی مہارشٹرا میںہرسال سوکھے کی وجہہ سے ہزاروں کی تعداد میںاپنی جان دیتے ہیں۔عمر خالد نے کہاکہ یہ بھی بڑے افسوس کی بات ہے کہ مدھیہ پردیش میںجہاں پر کانگریس پارٹی کی حکومت ہے وہ بھی مبینہ گائے کشی کے الزام میں مسلمانو ں پر مکوکہ عائد کررہی ہے تاکہ اپنی ہندو وادی شبہہ کو کم سے کم مہارشٹرا میںبرقرار رکھ سکے۔ انہوں نے کہاکہ بہرحال اپوزیشن جماعتوں کو اپنے رویہ میںتبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے جمہوری نظام کو بحال کیاجاسکے۔
انہوں نے کہاکہ اپوزیشن جماعتوں کا رویہ جو بھی رہے مگر میںسمجھتاہوں سیول سوسائٹی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے کمر بستہ ہوجائیں۔ بی جے پی یا پھر نریندر مودی یا امیت شاہ کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے عوامی مسائل کو اجاگر کیاجانا چاہئے جس سے مرکز کی نریندر مودی حکومت روگردانی اختیار کئے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہاکہ تعلیمی اداروں پر بھگوا سوچ اور نظریات کی بڑھتی اجارہ داری کے باوجود نریندر مودی کی حکومت طلبہ تحریکات کو روکنے میںپوری طرح ناکام رہی ۔ انہوں نے کہاکہ جواہرلال نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین الیکشن میںپھر ایک مرتبہ اے بی وی پی کو کڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ جادھو پور یونیورسٹی میںوہاںبابل سپریو کو طلبہ نے روک کر اپنے مطالبات منوائے ۔ تعلیمی اداروں میں آر ایس ایس سوچ کے پروفیسر س کا تقرر ‘ وائس چانسلروں کی تعیناتی کے باوجود بھی بی جے پی حکومت طلبہ کے انقلابی تحریکا ت کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ سیڈیشن کیس کے متعلق بات کرتے ہوئے عمر خالد نے کہاکہ تین سال بعد چارج شیٹ ‘ سنوائی سے گریز‘ مقدمہ کی پیروی میںتاخیر کے ذریعہ حکومت معاملے کو الجھائے رکھناچاہتی ہے تاکہ ہر الیکشن میںتکڑے تکڑے گیند‘ آزادی کے نعرے لگانے والے‘ جہادیوں کے حمایتی جیسے القاب کے ذریعہ وہ اپنی سیاسی روٹیاں گرم کرسکیں۔ عمر خالد سے ہوئی اس بات چیت کے اقتباسات سے یہ تو صاف ہوگیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں خود بی جے پی کی جال میںپھنس کر نرم او رسخت ہندوتوا کی شبیہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اس کے بجائے وہ اپنے سکیولر شبیہ پر زوردیتے تو شاید ملک کے رائے دہندوں کے پاس ہندوتوا کے متبادل سکیولر کی سوچ ہوتی اور شاید وہ کانگریس یا پھر دوسری اپوزیشن جماعتوں کو ووٹ دینے سے گریز نہیںکرتے۔اب بھی اپوزیشن کے پاس وقت ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کرے اور اسبات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں کہ ہندوستان کی بنیاد جس سکیولر زم پر ٹکی ہیںوہی ملک کی سالمیت ‘ حب الوطنی ‘ قومی سکیورٹی کا دائمی حل ہے۔ورنہ بعد میں خود ہی یہ کہنے پر مجبور ہوجائیںگے کہ
لگا کر آگ درختوں کو خود ہی ہاتھوں سے
عجیب لوگ ہیںسایہ تلاش کرتے ہیں