عذاب خوش فہمی کا

   

خیرالنساء علیم
فیضان کو اپنی وجاہت و خوبصورتی کا احساس تو لڑکپن سے ہی تھا ۔ اب جب سے برٹش کمپنی میں نوکری مل گئی تھی کافی آمدنی کا ذریعہ ہوگیا تھا … اسی لئے اس کا مزاج آسمان سے باتیں کرنے لگا تھا … جب بھی اس کے رشتے کی بات ہوتی تینوں بہنیں ایک ہی سر میں بولتیں… ’’ایک ہی تو بھائی ہے ہمارا ، ایسی بھابی لائیں گے کہ گھر بھر میں اجالا سا بکھر جائے‘‘… سب کی باتیں سن کر اماں ناپسندیدہ نظروں سے دیکھتیں۔ ان کا خیال تھا کہ غیر ضروری لڑکیوں کو رد نہیں کرنا چاہئے۔ خاندان میں ہی کئی لڑکیاں اچھی صورت کی پڑھی لکھی با ہنر موجود تھیں۔ مگر فیضان کے معیار پر کوئی بھی پوری نہ اترتی۔ اماں سمجھا سمجھا کر تھک گئیں۔
’’بیٹا فیضان ایسا نہیں سوچتے۔ رشتے داروں کے بڑے حقوق ہوا کرتے ہیں ۔ میں خود تمہاری بہنوں کی شادی کیلئے کس قدر پریشان ، فکرمند رہا کرتی تھی‘‘۔
مگر فیضان نے کہہ دیا … ’’خاندان کی کوئی لڑکی میرے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ مجھے بہت خوبصورت اور پڑھی لکھی لڑکی چاہئے … جس کو گھر گرہستی کا سلیقہ بھی آنا چاہئے ، اچھا پہننے ، اوڑھنے کا بھی شوق ہونا چاہئے‘‘۔
’’بیٹا خوبصورتی ہی سب کچھ نہیں ہوتی ۔ ا چھی تعلیم و تربیت کو دیکھنا چاہئے‘‘…’’او ہو ! ماں آپ بڑے ہی سادہ مزاج کی مالک ہیں۔ آج کل ہر چیز کو بہت باریک بینی سے دیکھنا پڑتا ہے۔ شادی بار بار تو نہیں ہوتی ہیں‘‘! فیضان نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کردی۔
فیصان تو نازک مزاجی میں تینوں بہنوں سے آگے تھا ۔ ابا کا لاڈلا، اماں کا پیارا تھا اماں تو خیر پیار کے ساتھ ساتھ تربیت کی بھی قائل تھیں، جس کی وجہ سے وہ پڑھائی میں دلچسپی لیتا تھا ۔ ہر کلاس میں اچھے نمبر لے کر پاس ہوتا رہا تھا ۔ ایم بی اے کرتے ہی اسے برٹش کمپنی میں اونچے عہدے پر ملازمت مل گئی تھی ۔ اب اماں ، ابا اور بہنوں کو اس کی شادی کی فکر ہوگئی تھی۔ یوں لڑکیاں دیکھنے کی ابتداء ہوئی تھی ۔
’’بھائی اگر کہیں ملازمت کرنے والی لڑکی دیکھی جائے تو کیسا رہے گا ‘‘؟
’’نہیں بالکل نہیں ! مجھے کم عمر ، معصوم صورت والی ، بھولی بھالی لڑکی چاہئے ۔ جس کا سراپا تازگی کا احساس لئے ہو سمجھے ! اور یہ ملازمت پیشہ لڑ یاں تم لوگ نہیں جانتیں ! روزانہ میک اپ کرتی ہیں ۔ مردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہیں ۔ تم لوگ ایسی لڑکیوں کے بارے میں سوچنا بھی نہیں ۔ میرے پاس کس چیز کی کمی ہے جو میں ایسی بیوی کے بارے میں سوچنے لگوں۔
ہاں البتہ تم لوگ پیسے والے امیر گھر کی لڑکیوں کے بارے میں ضرور سوچو۔ کھاتے پیتے گھرانوں کی لڑکیاں اپنے بارے میں زیادہ کیر کرتی ہے اور انہیں فیشن کے مطابق پہننے اوڑھنے کا سلیقہ بھی ہوتا ہے‘‘…
پھر فیضان کے دوست کی بیوی کے ساتھ ان کے خاندان میں لڑکی دیکھنے گئے تھے ۔ جیسے ہی ٹیکسی گھر کے سامنے رکی ، تینوں بہنوں نے نظروں ہی نظروں میں گھر اچھا ہے کا سگنل دیا۔
’’گھر تو واقعی بہت اچھا ہے ۔ خاصا بڑا ، خاص کر ڈرائینگ روم بہت خوبصورتی سے سیٹ کیا گیا ہے … لڑکی کا پورا گھر اسی طرح سیٹ دکھائی دیتا ہے ‘‘۔
لڑکی کی والدہ اور چھوٹی بہن استقبال کیلئے آئیں ۔ اس کے بعد مختلف قسم کے لوازمات کے ساتھ سجی ہوئی ٹرالی کے ساتھ آنے والی وہی لڑکی تھی ، جسے دیکھنے کیلئے آئی تھیں۔ خوب کھاپی کر سب لوگ واپسی کیلئے اُ ٹھ گئے ۔ اماں نے لڑکی کی والدہ سے کہا …’’بہن آپ بھی ہمارے گھر آیئے گا ۔ لڑکی تو پسند ہے اور آپ بھی میرے بیٹے کو دیکھئے ملیئے گا ۔ میں کل شام ، آپ سب کا انتظار کروں گی ‘‘
گھر آئے تو فیضان ٹی وی دیکھ رہا تھا ۔ تینوں بہنیں تھکی تھکی سی دکھائی دے رہی تھیں۔ اس نے اماں سے پوچھا ۔ ’’کیا ہوا اماں ! لڑکی پسند آئی ؟ ‘‘ وہ کسی اچھی خبر کا منتظر تھا۔’’ہاں بیٹا ! اچھے سلیقہ مند لوگ ہیں اور لڑ کی ایسی نازک کہ جی کرے بس دیکھتے ہی جائیں۔ میرا تو جی خوش ہوگیا ان سب سے مل کر‘‘…
’’جی ہاں اسی خوشی میں اماں نے لڑکی کی چپٹی ناک بھی نہیں دیکھی ‘‘ ۔ بڑی بہن نے تنک کر کہا …’’چپٹی ناک … نہیں نہیں … مجھے پکوڈا ناک والی سے شادی نہیں کرنی ‘‘…
’’فیضان وہ بہت اچھے لوگ ہیں… ماں باپ تو جو ہیں ، دادا دادی ، نانا نانی سب پڑھے لکھے ہیں۔ سلیقہ مند لوگ ہیں۔ ان سب سے مل کر میں تو بہت متاثر ہوئی ہوں‘‘۔
’’اماں ! اب آپ انکار کر دیں ان لوگوں کو ۔ میں خواب میں بھی اس لڑکی سے شادی نہیں کرسکتا‘‘…’’بیٹا وہ تو تمہاری تصویر دیکھ کر ہی ہاں کرنے کو تیار ہیں‘‘…
’’کیوں نہ ہوں گے … کون سی کمی ہے مجھ میں … وہ تو چاہیں گے اپنی بد صورت بیٹی کو میرے پلے باندھ دیں جہاں لڑکوں کی مائیں آپ جیسی سیدھی ہوں وہاں تو کوئی مشکل ہی نہیں رہتی ‘‘۔
لڑکی والوں کو انکار کہلادیا گیا اور اماں کتنے ہی دن افسردہ رہیں۔ وقت کا کام ہے گزرنا اور وہ گزرتا ہی رہا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے تینوں بیٹیوں کی شادیاں ہوگئیں۔ آگے پیچھے کچھ مہینوں کے فرق سے ہی سب کی شادیاں ہوگئیں اور تینوں بہنیں بھی اپنے اپنے سسرالوں میں ایڈجسٹ ہوگئیں۔ اماں ہر وقت فیضان کے بارے میں ہی پریشان ہوتی رہتیں۔ کوئی بھی لڑکی فیضان کے معیار پر پوری نہ اترتی۔ ہر ایک میں کوئی نہ کوئی خامی وہ ڈھونڈ ن کالتا اور بات جہاں کی وہاں ہی رہ جاتی ۔ اس طرح چند سال اور گزر گئے ۔ ’’بیٹا اب تک تمہاری شادی ہوجانی چاہئے تھی ۔ تمہارے لئے لڑکیاں دیکھتے کافی عرصہ ہوچکا ہے‘‘ …
’’او ہو امی ! کونسا بڈھا ہوگیا ہوں میں کہ اب جلدی میں بس جیسی بھی ملے کرلوں شادی ۔ زندگی میں یہ موقع ایک بار آتا ہے ۔ بیوی اگر پسند کے مطابق نہ ہو تو پھر سمجھو زندگی میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں رہتا‘‘۔
اچھی لڑکیوں کی کمی نہیں ہے بیٹا ! بس تم نے اپنا معیار ہی بہت اونچا بنالیا ہے‘‘۔
’’آپ نے شائد اپنے بیٹے کو کبھی غور سے نہیں دیکھا ۔ ایسی پرسنالیٹی ہے میری ۔ جدھر سے گزرتا ہوں لوگ دیکھے بغیر نہیں رہ سکتے‘‘ … وہ اماں کی بات پر اچھا خاصا خفا ہوکر جتاتے ہوئے بول رہا تھا…
یہ تو سچا ہی نہیں تھا کہ بڑی بہن کے سسرال میں ہونے والی دعوت فیضان کیلئے اتنی مبارک ثابت ہوگی کہ دعوت میں شریک ایک نہایت ہی خوبصورت حسینہ اس کے دل کو بھاگئی ۔ جیسے ہی بڑی بہن پر نظر پڑی فوراً اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا اور کہنے لگا۔
’’اتنی خوبصورت لڑکی تمہارے سسرال میں ہے اور تم نے ذکر نہیں کیا‘‘۔ ’’بھائی ! آپ کس لڑکی کی بات کر رہے ہیں‘‘؟
’’میں اس لڑکی کی بات کر رہا ہوں میری بہنا جو ہلکے گلابی رنگ کے کپڑوں میں سرخ و سفید رنگت کے ساتھ بالکل ایک نازک سا گلاب کا پھول لگ رہی ہے‘‘؟
’’اچھا ! وہ شیزا ہے۔ میری نند کی سسرالی رشتہ دار ہے ۔ وہ لوگ بنگلور میں رہتے ہیں۔ لڑکی اکلوتی ہے ۔ والدین کی بے حد لاڈلی ہے‘‘…
’’تم فوراب اس کے لئے بات کرو۔ اب دیر نہیں ہونی چاہئے ۔ تم اسے اماں سے بھی ملواؤ بلکہ ایسا کرو میں تمہارے کمرے میں جاتا ہوں تم کسی بہانے سے اسے اپنے کمرے میں بھجواؤ۔ شاید میں ہی کچھ بات کرلوں‘‘ فیضان بے حد ترنگ میں اپنے خیالوں میں ہزاروں خوبصورت سے خواب سجائے اس کے کمرے کی جانب بڑھا۔ مگر کمرے میں شیزاء کے ساتھ کوئی اور بھی تھا جس سے وہ باتیں کر رہی تھیں ۔ فیضان دروازے پر ہی رک گیا۔
’’شیزاء میری جان ! میں اور تمہارے ابو تمہاری مرضی کے بغیر کوئی قدم اٹھا ہی نہیں سکتے، ہمارے خیال میں فیضان ایک اچھا شریف ، ہمدرد اور برسر روزگار لڑ کا ہے ۔ اس کو ناپسند کرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔ بیٹی تم سمجھ نہیں رہی ہو ‘‘۔
’’نہیں امی مجھے وہ فیضان نامی لڑکا بالکل پسند نہیں ہے ‘‘… اس کا انداز روٹھا روٹھا سا تھا … ’’اس کی والدہ نے بڑی محبت اور اصرار سے رشتہ مانگا ہے شیزاء‘‘…’’انہیں اصرار تو کرنا ہی تھا ۔ بیٹا بڈھا ہوا جارہا ہے اگر وقت پر شادی کرلیتا تو دو چار بچوں کا باپ ضرور ہی ہوجاتا … مجھے اتنی بڑی عمر کا مرد بالکل پسند نہیں ہے‘‘۔’’خیر اب وہ اتنا بڑا بھی نہیں شیزاء‘‘… اس کی امی بات کو آگے بڑھانا چاہ رہی تھیں…’’شکل ہی خرانٹ سی ہے۔ سر میں صرف اتنے بال ہیں کہ دو منٹ میں گنتی پوری کرلیں۔ صرف رنگ گورا ہونے سے کچھ نہیں ہوتا ۔ میں اس کے ساتھ کھڑی ذرا بھی نہیں سجوں گی ۔ میں زندگی بھر کے لئے ندامت نہیں برداشت کرسکتی۔ اگر آپ منع نہیں کرسکتیں تو میں ہی منع کردوں گی‘‘۔
اور فیضان بہن کو بتائے بغیر ہی چپ چاپ لوٹ آیا ۔ وہ خوب سے خوب ترکی جستجو میں رہا یہاں تک کہ خود کا چہرہ کسی بھی گنتی میں نہ آسکا … گزرے وقت کا حساب کرنے کے لئے وہ بستر پر ڈھیر ساگیا ۔ کتنی لڑکیوں کو ٹھکرایا۔ کتنی لڑکیوں میں نقص نکالتے ہوئے اسے وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ۔
آج سے پہلے خود پرستی کی عینک پہن کر ہر ایک کو دیکھا کرتا تھا ۔ آج شیزاء کی باتوں نے اس کی وہ عینک اتار دی تو اس پر سب کچھ عیاں ہوگیا۔ اب وہ بے حد تھکا ہوا سا اپنا احتساب کر رہا تھا ۔ اس پر یہ واضح ہوچکا تھا کہ رد کئے جانے کا کیا احساس ہوتا ہے ۔ میں نے تو کئی لڑکیوں کو رد کیا ہوں ۔ مگر میں صرف ایک لڑکی سے رد ہوکر ریزہ ریزہ ہوگیا ہوں۔ اماں کے بہنوں کے کسی کے سمجھانے کا مجھ پر کوئی اثر نہ ہوسکا تھا لیکن مجھے اب یہ احساس ہوچکا ہے کہ کسی کی بھی دل آزآری نہیں کرنی چاہئے ۔ دیر ہی سے سہی مجھے اب یہ احساس ہوچکا ہے کہ میں بے حد غلط پر تھا ۔ اب اللہ نے چاہا تو میں ایسی کوئی غلطی نہیں کروں گا ۔ اب وہ سچے دل سے اللہ سے معافی کا طلبگار تھا…