عصمت چغتائی کے ناولوں اور افسانوں میں نسائی حسیت

   

ڈاکٹر رؤف خیر
ان دنوں مختلف یونیورسٹیوں میں نسائی حسیت کے موضوع پر بے تحاشہ مقالے لکھے اور لکھوائے جارہے ہیں مگر آج سے تقریباً پچیس چھبیس سال پہلے حیدرآباد کی ایک ہونہار طالبہ عطیہ فاطمہ نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد میں پروفیسر مغنی تبسم کے تجویز کردہ ’’عصمت چغتائی کے ناولوں اور افسانوں میں نسائی حسیت‘‘ کے موضوع پر ایم فل کے لئے مقالہ لکھا تھا جو سات ابواب پر مشتمل تھا ۔ تمہید کے طور پر عطیہ فاطمہ نے قدیم ہندوستانی سماج میں عورت کا تصور ہندوستان میں تحریک آزادی نسواں ، نسائی تحریک کے محتلف رجحانات اور نسائی حسیت کے تعلق سے بے شمار انگریزی اور اردو کی کتابوں سے قابل لحاظ مواد جمع کیا تھا ۔ پروفیسر بیگ احساس کی نگرانی میں لکھے ہوئے اس مقالے پر عطیہ فاطمہ کو OU نے ایم فل کی ڈگری دی۔ عصمت چغتائی کے ناولوں اور افسانوں میں نسائی حسیت کا جائزہ لینے سے پہلے عطیہ فاطمہ نے عصمت سے پہلے کے بعض ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کی تحریروں میں نسائی حسیت کی نشان دہی کی۔

ویدک زمانے میں عورت اور مرد مساویانہ درجہ رکھتے تھے ، مذہبی امور میں بھی دونوں حصہ لیا کرتے تھے ۔ عطیہ فاطمہ کی تحقیق کے مطابق کوٹلیا کی اردو شاستر تین سو (300) قبل مسیح میں ایسی عورتوں کا تذکرہ ملتا ہے جو سپاہی بھی تھیں۔ محض مردوں کا دل بہلانے کا ذریعہ نہیں تھیں یعنی وہ صرف رقاصائیں ، گلوکارائیں نہیں تھیں بلکہ تیر تلوار گھڑسواری میں بھی طاق ہوا کرتی تھیں۔ عورت کو اپنا شوہر منتخب کرنے کا حق حاصل تھا چنانچہ کئی چاہنے والوں کی صورت میں سوئمبر کا انعقاد عمل میں آتا اور سب سے قابل ترین مرد کو چنا جاتا ، وہ لڑکی کو لے جا پاتا۔ ویدک دور کے بعد عورت کے مرتبے میں بتدریج زوال آیا اور وہ مر دوں کا آلۂ کار بن کر رہ گئی ۔ ایک زمانے میں ایک عورت پانچ پانچ مردوں کو خوش Entertain کرسکتی تھی، پھر یوں ہوا کہ ایک مرد سینکڑوں عورتوں ، باندیوں ، رکھیلوں کے ساتھ عیش کرنے لگا اور عورت کی کوئی اوقات ہی نہیں رہ گئی اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہی۔
عرب میں تو لڑکیوں کو زندہ دفن کردینے میں کوئی عار نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کو قتل ہوجانے سے بچالیا اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جس میں بیٹی سے محبت کرنا سکھایا گیا بلکہ اس کو وراثت کا حق دار بنایا گیا ۔
ہندوستان میں ستی کی رسم عام تھی ۔ مرجانے والے شوہر کے ساتھ بیوہ کو بھی جلا دیا جاتا تھا ۔ راجہ رام موہن رائے کو ستی کی اس رسم کو ختم کرنے کے لئے بڑی جدوجہد کرنی پڑی۔ ہندوستانی سماج میں بچپن کی شادی بھی عام تھی ، بیوہ کی شادی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا ۔ عورتیں مندروں پر دیو داسی کی شکل میں پلتی تھیں جو پنڈتوں برہم چاریوں کی زیادتیوں کا شکار ہوتی رہتی تھیں۔ ڈاکٹر منموہن کور کے حوالے سے عطیہ فاطمہ نے بتایا کہ لڑکی کو شیرخواری ہی کے دور میں بھینک ڈال کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا اور بھی طریقے اپناکراس کا قتل کردیا جاتا تھا ۔
دوسرے باب میں عطیہ فاطمہ نے ہندوستان میں آزادی نسواں کی کئی اصلاحی تحریکوں کا تفصیل سے ذکر کیا ۔ برہمو سماج اور اینی بیسنٹ کی ہوم رول تحریک کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ 1926 ء میں ہندوستان میں پہلی بار عورت کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوا پھر تو اس نے جنگ آزادی میں بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ حصہ لیا ۔

تیسرے باب میں نسائیت Feminism کی مختلف تحریکوں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اشترکی نسائی تحریک Socialist Feminism میں اینگلز کہتا ہے کہ ماں بننے کی وجہ سے عورت کو اونچا مقام حاصل رہا مگر جیسے جیسے معاشرہ مہذب ہوتا گیا تو عورت اب مرد کی غلام بن کر رہ گئی ۔ نکاح بیاہ کی رسم کی وجہ سے عورت اب ایک مرد کی ملکیت ہوکر رہ گئی۔ عطیہ فاطمہ نے اسقاطِ حمل کے جواز اور جائز و ناجائز بچوں میں تفریق نہ کرنے کے قانون کے حوالے سے بھی اپنی تحقیق پیش کی ۔ چوتھے باب میں عورت کے خود مکتفی ہونے پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس کے آزادانہ زندگی گزارنے کے حق کو تسلیم کرنے پر دادِ تحقیق دی گئی ہے ۔
پانچویں باب میں عطیہ فاطمہ نے عصمت چغتائی سے پہلے کے لکھنے والوں کی تحریروں میں نسائی حسیت کا جائزہ لیا ۔ خاص طور پر ڈپٹی نذیر احمد نے 1869 ء میں تحریر کردہ اپنے پہلے ناول مراۃ العروس میں لڑکیوں کی اخلاقی حیثیت و خانہ داری کو موضوع بحث بنایا تھا ، اسی سلسلے کے ایک اور ناول بنات النعش میں بھی نسائی سلیقہ مندی و بدسلیقگی کی اونچ نیچ سمجھائی گئی تھی ۔ ’’ریاضی‘‘ ناول میں جوان بیوہ کی شادی کے حق کو موضوع بنایا گیا ہے ۔

مرزا ہادی رسوا نے امراؤ جان ادا لکھ کر ایک خاص طبقہ کی نسائیت کے اتار چڑھاؤ کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ۔ پریم چند نے نرملا، بازار حسن کفن جلوۂ ایثار لکھ کر عورت کے کئی اچھے برے پہلو دکھائے۔ اس کے بعد عطیہ فاطمہ نے ترقی پسند فکر کے نمائندہ افسانہ نگار احمد علی ، رشید جہاں ، محمود الظفر اور سجاد ظہیر کے مجموعے ’’انگارے‘‘ کا تفصیلی جائزہ لے کر نسائی بے باکی کے مظاہرے دکھائے ۔ آگے انہوں نے نذر سجاد، حجاب اسمعیل کے ساتھ طاہرہ دیوی شیرازی کا نام بھی لیا ہے ۔ (طاہرہ دیوی شیرازی دراصل اک فرضی نام تھا، جس پر نیاز فتح پوری فریفتہ ہوگئے تھے ۔ خیر)
چھٹے باب کا آغاز عصمت چغتائی کے ناولوں میں نسائی حسیت سے ہوتا ہے ۔ عصمت نے جملہ آٹھ ناول لکھے ۔ ضدی، ٹیڑھی لکیر، معصومہ ، سودائی (جس پر فلم بزدل بنائی گئی تھی) جنگلی کبوتر ، دل کی دیا ، عجیب آدمی ، ایک قطرۂ خون ۔ ان کے علاوہ عصمت کا ایک ناولٹ باندی بھی ہے جس پر عطیہ نے کھل کر لکھا ہے ، ایک ایک ناول کے نسائی کرداروں کی نفسیات کا عطیہ فاطمہ نے خوب جائزہ لیا ہے ۔ انہوں نے ممتاز شیریں کا ایک جامع قول بھی درج کیا ہے جو عصمت کے فکر و فن کے بھرپور جائزے کے بعد قول فیصل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ ممتاز شیریں لکھتی ہیں۔ عورت کے جنسی جذبے ، جنسی اٹھان اور ارتقاء اور نفسیات کو تو عصمت چغتائی سے بہتر کوئی ترجمان شاذ ہی مل سکے ۔ عصمت نے بے کانہ جرأت سے عورت کو پہلی دفعہ اصلی روپ میں پیش کیا تھا۔ (عطیہ فاطمہ نے یہاں ممتاز شیریں کا قول تو پیش کیا مگر اس کا کوئی حو الہ نہیں دیا کہ کہاں سے اٹھایا گیا ہے)

عطیہ فاطمہ نے عصمت چغتائی کے آٹھوں ناولوں میں در آنے والے کرداروں کی نفسیات کا بڑی عرق ریزی سے جائزہ لیا۔ نسائی حسیت کے اپنے موضوع کا جواز پیش کیا ۔
ساتویں اور آخری باب میں عصمت چغتائی کے افسانوں میں نسائی حسیت کے نئے پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی جو عصمت سے مخصوص ہیں ۔ جیسے مشترکہ خاندان میں جنسی بے راہرویاں ، جائز و ناجائز بچوں کی پیدائش ، جنسی گھٹن اور جنسی دباؤ کی نکاسی کے فطری و غیر فطری سامان ، جسم فروشی کے لئے عورت کا مجبور ہوجانا، ابارشن وغیرہ۔ عصمت چغتائی افسانے ہیں: جڑیں ، نوالہ ، مٹھی مالش، لال چونٹے ، نیرا ، جوانی، تاریکی ، فسادی ، سانپ ، ڈھیٹ ، بیمار ، پردے کے پیچھے ، چوتھی کا جوڑا وغیرہ وغیرہ ۔ عصمت کے بدنام زمانہ افسانہ ’’لحاف‘‘ پر کئی نقادوں کی آراء بھی عطیہ نے کوٹ کی ہیں لیکن کہیں بھی یہ کھل کر نہیں لکھا گیا کہ یہ غیر فطری جنسی بے راہروی یا ہم جنسی کا لحاف ہے۔ شائد فطری حیا مانع رہی ہو جس پر سعادت حسن منٹو کا دلچسپ ریمارک یاد آتا ہے کہ ’’کم بخت عصمت آخر عورت ہی نکلی‘‘۔
مختصر یہ کہ عطیہ فاطمہ نے ’’عصمت چغتائی کے ناولوں اور افسانوں میں نسائی حسیت‘‘ کے موضوع سے پورا پورا انصاف کیا ہے ۔ اس موضوع پر لکھنے والوں نے اب تک اتنا زیادہ لکھ دیا ہے کہ عطیہ فاطمہ کی تحقیق اولیت کا درجہ رکھنے کے باوجود ثانوی حیثیت اختیار کر گئی ہے ۔ تحقیق یا تخلیق اگر وقت پر منظر عام پر نہیں آتی ہے تو اپنی اولیت سے محروم ہوجاتی ہے اور دوسرا اپنی چالاکی اور مستعدی سے زمانی طور پر بازی مار لے جاتا ہے۔