علوم اسلامیہ کی تدریس وتفہیم بزبان انگریزی دورحاضرکے تناظرمیں

   

از:۔مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
مسلمان انفرادی ،اجتماعی ،معاشی ومعاشرتی تمام معاملات میں وحی الہی کے پابندہیں،مسلمانوں ہی کیلئے نہیں بلکہ ساری انسانیت کیلئے وحی الہی کی پابندی دنیا وآخرت کی کامیابی کی ضامن ہے۔تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات وحی الہی کا سرچشمہ ہیں جواب پوری طرح محفوظ نہیں ہیں اورنہ ہی وہ عملا باقی ہیں، چونکہ اللہ سبحانہ کی مرضی یہی تھی اس لئے اس کی حفاظت کا من اللہ کوئی سامان نہیں ہوا،سیدنا محمدرسول اللہ ﷺکوجودین حق دیا گیا ہے وہ بھی وہی دین ہے جس کا منبعِ فیضان وحی الہی ہے۔آپ ﷺپرجوقرآن کریم نازل کیا گیا ہے وہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کا جامع ہے،اوریہ آخری آسمانی کتاب ہے جس کے بعدوحی الہی کا سلسلہ موقوف ہوچکا ہے،نبی رحمت سیدنا محمدرسول اللہ ﷺکی بعثت مبارکہ سے تمام انبیاء کرام علیہم السلام پرنازل کردہ احکامات منسوخ کردئیے گئے ہیں ،حق کی روشنی پانا ہواورقلب وقالب کواس سے مستنیرکرنا ہو تو اب یہی آخری پیغام الہی ہے ،اس کے بغیرحق رسی ممکن نہیں ہے۔اللہ سبحانہ نے آخری آسمانی ہدایت نامہ قرآن مجیدکے نزول کا آغاز’’اقرأ‘‘ سے فرمایاہے،احادیث رسولﷺکا مقصود قرآن مجیدکی تعلیمات کی توضیح،تشریح وتبیین(واضح طورپربیان کرنا)ہے،یہی کتاب وسنت ہی اسلامی پیغام کا اصل سرچشمہ ہیں ان پرعمل کرنا اوردوسروں کواسکی دعوت دینا’’اقرأ‘‘ پرعمل یعنی پڑھے لکھے بغیرممکن نہیں۔اس لئے آپ ﷺنے سب سے پہلے مسجدنبوی ﷺمیں درسگاہ کا آغازفرمایا جس کا نام’’صفہ‘‘تھا،مدینۃ المنورہ میں یہ اسلام کی اولین درسگاہ تھی،جس کے اولین معلم سیدنامحمدرسول اللہ ﷺتھے،کرئہ ارض پرجتنے دینی مدارس وجامعات قائم ہوئے،قائم ہیں اورقیامت تک قائم ہوتے رہیں گے ان سب کی نسبت اسی اولین درسگاہ(صفہ)سے قائم ہے۔حضرات صحابہء کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے اپنے آپ کوطلب علم کیلئے وقف کرلیا تھا جوہروقت سیدنامحمدرسول اللہ ﷺکی خدمت اقدس میں حاضررہتی،آپ ﷺکے ارشادات سماعت کرتی اورانہیں محفوظ کرلیتی ،کتاب وسنت کے الفاظ ومعانی اوراس کے احکام وپیغام کوعام کرنے والی یہی اولین جماعت ہے جس نے براہ راست حضورانورسیدعالم ﷺسے اکتساب فیض کیا ، سیکھنے سکھانے کایہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ خیرالقرون سے اب تک جاری ہے اورتاقیام قیامت جاری رہے گا۔انبیاء کرام علیہم السلام جووراثت چھوڑتے ہیں وہ دینارودراہم کی نہیں بلکہ علم کی ہوتی ہے،وان العلماء ورثۃ الانبیاء وان الانبیاء لم یورثوادینارا ولا درہما،انما ورثوا العلم(ترمذی:۲۶۸۲) علم کی اہمیت کا اندازہ اس ارشادباری سے ہوتا ہے’’جاننے والے اورنہ جاننے والے دونوں برابرنہیں‘‘(الزمر:۹)رسول اللہ ﷺکا ارشادہے’’علم کا طلب کرنا ہرمسلمان پرفرض ہے‘‘اورفرمایا :افضل الصدقہ ان یتعلم المرأ المسلم علما، ثم یعلمہ اخاہ المسلم(ابن ماجہ:۲۳۹ ) ’’بہترین صدقہ یہ ہے کہ ایک مسلمان خودعلم سیکھے اوردوسروں کوسکھائے ‘‘ آپ ﷺنے یہ بھی ارشادفرمایا: خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ(بخاری:۴۶۶۴)سیکھنے سکھانے والی جماعت میں سب سے بہتروہ جماعت ہے جوقرآن سیکھے اورسکھائے۔
مسلم دنیا میں دوطرح کی درسگاہیں کام کررہی ہیں:ایک وہ جس میں علوم اسلامیہ کی تعلیم دی جاتی ہے،اب توبعض اداروں میں مختلف اسلامی فنون میں تخصصات کے شعبے بھی قائم ہیں جس کی وجہ تحقیق وجستجوکی راہیں کھل رہی ہیں ،البتہ سوائے چندکے اکثر دینی مدارس وجامعات میں انگریزی زبان سکھانے کا رواج نہیں ہے۔دوسرے عصری علوم کے مدارس وجامعات ہیں جو اپنے مقررہ نصاب کی تکمیل میں دلچسپی رکھتے ہیں جہاں بنیادی ضروری دینی تعلیم کا کوئی خاطرخواہ نظم نہیں ہے جس کی وجہ عصری تعلیم گاہوں کے اکثرطلباء دینی شعورسے بے خبرہیں، عام طورپرگھریلوماحول بھی دیندارانہ نہیں ہے،یہ بھی ایک سانحہ سے کم نہیں کہ ایسے بہت کم مسلم طلباء ہیں جو عصری علوم میں مہارت وکمال حاصل کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں ۔برصغیرہندوپاک میں انگریزوں کا تسلط رہا،اب سوال یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی اس امت نے انگریزی زبان میں کس درجہ کمال پیداکیا اورکتنے ایسے ماہرین پیداکئے جوانگریزی زبان وادب کے ماہرین کومتاثرکرسکیں ہوں؟ شاید وہ انگلیوں پرگنے جاسکیں گے،لیکن انگریزی تہذیب وتمدن ،مغربی وضع قطع نے مسلم سماج پرایسے گہرے اثرات چھوڑے ہیں کہ جس کی وجہ مسلم دنیا کا دینی تشخص اوراسلامی امتیازبتدریج ختم ہوتارہااوراب مغربی تہذیب کے جراثیم مسلم سماج میں اس قدرسرایت کرگئے ہیں کہ کرئہ ارض پر ایک آئیڈیل مسلم سماج دیکھنا چاہیں توشایدوباید ہی نظرآئے۔اللہ سبحانہ غریق رحمت کرے ان اکابردردمندعلماء کوجنہوں نے ایسے دل شکن حالات میں دینی مدارس قائم کئے،اکثرغریب مسلم خاندانوں کے بچے دینی مدارس سے فیضیاب ہوئے اوراب بھی ہورہے ہیں،یہی مدارس اسلامیہ ہیں جنہوں نے اسلام کا چراغ روشن رکھا ہے،دنیا بھرمیں اسلامی کردارومذہبی تشخص کی جھلک جہاں کہیں دکھائی دیتی ہے وہ دینی مدارس وجامعات کی رہین منت ہے۔مساجدکوائمہ وخطباء یہیںسے فراہم ہورہے ہیں،دعوت وتبلیغ کا فریضہ بھی انہیں سے انجام پارہاہے،نامساعد حالات میں بھی اسلامی جرائدورسائل کی اشاعت بھی انہیں کی دردمندانہ کاوشوں کا نتیجہ ہے،کامیاب خانقاہی نظام میں بھی ان کا اہم رول رہاہے،دینی مدارس وجامعات کی خدمات لائق تحسین وقابل ستائش ہیں۔دینی جامعات کا نصاب تعلیم توعربی میں ہے لیکن اکثردینی مدارس میں تفہیم کی زبان اردو ہے، موجودہ حالات میں جبکہ اردوکا چلن ختم ہوتاجارہاہے ،ہندوپاک میں بھی اردوزبان بول چال کی زبان ہوکررہ گئی ہے،اس وقت انگریزی زبان نے مرکزی حیثیت حاصل کرلی ہے،ایک سروے رپورٹ میں دنیا بھرمیں انگریزی زبان کے جاننے والوں کے تعداد کم وبیش ایک ارب سے زیادہ بتائی گئی ہے،اردوزبان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے،اس کے تحفظ وبقاء کی ہرممکنہ کوشش جاری رہنی چاہئے تاکہ اردوزبان میں محفوظ اسلامی سرمایہ سے افرادامت بھرپور استفادہ کرسکیں۔ اردوزبان سے رابطہ کی کمی نے اسلامی روایات سے رابطہ منقطع کرنے میں جورول اداکیا ہے وہ نا گفتہ بہ ہے،اس نقصان کومحسوس کرنے اوراس کی تلافی کے اقدامات ضرورکئے جانے چاہئے۔
تاہم موجودہ حالات میں ایسی دینی جامعات کی شدیدضرورت محسوس کی جارہی ہے جہاں علوم اسلامیہ کی اعلی تعلیم کا انتظام ہو ،حالات زمانہ کی رعایت رکھتے ہوئے نصاب تعلیم جزوی تبدیلی کے ساتھ وہی ہو البتہ اس کی تفہیم انگریزی زبان میں ہو،تاکہ یہاں سے فارغ ہونے والے علماء ’’لسان قوم ‘‘قوم کی زبان میں دین کا پیغام پہنچاسکیں اور مسلم سماج کا اکثروہ حصہ جواردوسے نابلداورانگریزی زبان میں درک رکھتاہے ان کی اصلاح وتربیت کا سامان ہو۔اوروہ غیرمسلم اقوام جن کی مادری زبان انگریزی ہے یا مادری زبان انگریزی تونہیں لیکن وہ انگریزی میں کمال درجہ کی مہارت رکھتے ہیں اورجن کا لکھنا،بولناسب انگریزی زبان میں ہے ان کواسلام سے روشناس کرانے کیلئے بھی اس کی شدیدضرورت ہے۔کسی بھی پیغام کی اثرپذیری کیلئے زبان بہت بڑاوسیلہ ہے،معلومات کی ترسیل زبان ہی کے ذریعہ ممکن ہے،اوراللہ سبحانہ نے زبانوں کے اختلاف کواپنی نشانی قراردیاہے اللہ سبحانہ نے سورئہ رحمن کے آغازمیں انسان کی تخلیق کا ذکرکرتے ہوئے ’’علمہ البیان‘‘ (رحمن:۴) ارشادفرماکرنطق وبیان کی نعمت دئیے جانے کاتذکرہ فرمایاہے۔ہرقوم کی زبان میں انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کاذکرفرمایاہے(ابراہیم:۴)
اسلام دشمن طاقتیں اس وقت دومحاذپرکام کررہی ہیں،ایک مسلم قوم کے اعتقادی وفکری ایقان میں تزلزل پیداکیا جائے،روحانی اقدارسے ان کا رشتہ کمزورکرکے مادیت کے سیلاب میں غرق آب کردیا جائے، حرام وحلال کے درمیان فرق وامتیاز، سودی نظام کی حرمت وشناعت، بے پردگی ونیم برہنگی ،مخلوط نظام تعلیم وملازمت کے نقصانات وغیرہ جیسے اسلامی افکار کودقیانوسی اورموجودہ حالات میں ناقابل عمل باورکراتے ہوئے دین اسلام سے ان کا رشتہ کمزورکیا جائے تاکہ راہ استقامت سے ان کے قدم ڈگمگاجائیں۔رسمی طورپراسلام سے تعلق رکھیںاورسماجی،سیاسی ومعاشرتی سطح پرغیراسلامی وباطل نظام حیات پرراضی ہوجائیں۔دوسرے سوچی سمجھی منصوبہ بندسازشوں کے ذریعہ اسلام کے خلاف زہرافشانی کی جائے،پیغمبراسلام ﷺاورداعیان اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کی جائے تاکہ سادہ لوح غیرمسلم اصحاب کواسلام سے قریب ہونے سے روکاجاسکے۔افسوس !کہ اسلام ومسلم دشمن اس میں بڑی حد تک کامیاب ہیں۔اسلام دشمن طاقتوں کوان دومحاذات میں ناکام کرنے کی واحدراہ یہی ہے کہ کتاب وسنت کے ایسے ماہرین تیارکئے جائیں جوانگریزی زبان میں حکمت وموعظت کے ساتھ ان کا جواب دے سکیں،اوربوقت ضرورت ’’وجادلہم بالتی ہی احسن‘‘یعنی حکیمانہ اسلوب، خیرخواہانہ وناصحانہ اندازبیان ،عمدہ دلائل کے ساتھ خیروفلاح کی دعوت کا فرض باحسن الوجوہ پوراکرسکیں۔