عوام ہر مسئلہ پر عدالت سے رجوع ہونے پر مجبور

   

محمد نعیم وجاہت

سرکاری ملازمین اور وظیفہ یابوں کی تنخواہوں میں کٹوتی کے لئے جاری کردہ آرڈیننس سے تلنگانہ دولتمند ریاست ہونے کی قلعی کھل گئی۔ تلنگانہ میں کورونا کا قہر جاری ہے۔ گریٹر حیدرآباد کورونا کے کیپٹل میں تبدیل ہوگیا ہے۔ مجاہدین تلنگانہ حتی کہ ہندوستان۔ چین فوجیوں کے مابین ہوئے تصادم میں شہید کرنل سنتوش بابو کو بھی چیف منسٹر نے خراج عقیدت پیش نہیں کیا جبکہ تلنگانہ کی مخالفت کرنے والے اور بطور احتجاج راجیہ سبھا کی رکنیت سے مستعفی ہونے والے فلم اسٹار سے سیاستدان بن جانے والے ہری کرشنا کی حادثاتی موت پر چیف منسٹر کے سی آر نے ان کے ارکان سے ملاقات کیا اور حیدرآباد میں ہری کرشنا کی یادگار قائم کرنے کا بھی اعلان کیا۔ کورونا بحران سے ساری دنیا پریشان ہے ہندوستان کو بھی اس سے استثنیٰ نہیں ہے۔ لاک ڈاون کے نافذ سے ملک کی معیشت پر اس کا بہت زیادہ اثر ہوا ہے۔ ریاست تلنگانہ بھی اس کی زد میں ہے۔ مگر چیف منسٹر کے سی آر کی جانب سے ریاست تلنگانہ کو ملک کی دولتمند ریاست ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ لاک ڈاون کے ختم ہونے کے بعد ریاست میں معاشی سرگرمیوں کا آغاز ہوگیا ہے جس سے ریاست کا خالی خزانہ بھرنے لگا ہے۔ مگر حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد وظیفہ یابو کے وظیفہ میں 25 فیصد، سیول سرویس ملازمین کی تنخواہوں میں 60 فیصد اور عوامی منتخب نمائندوں ارکان اسمبلی ارکان قانون ساز کونسل کی تنخواہوں میں 75 فیصد کی کٹوتی کی جارہی ہے۔ تنخواہوں اور وظیفہ یابوں کی تنخواہوں میں کٹوتی کے خلاف ہائی کورٹ میں داخل کردہ عرضی پر ہائی کورٹ نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس کیا کہ مالیاتی ایمرجنسی کے نفاذ سے قبل تنخواہوں میں کٹوتی کو غلط قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے امکانات کی نقول ہائی کورٹ میں داخل ہونے کی حکومت کو ہدایت جس پر راتوں رات فیصلہ کرتے ہوئے حکومت نے تنخواہوں میں کٹوتی کے لئے آرڈیننس جاری کرتے ہوئے اپنے فیصلے سے عدالت کو واقف کرایا جس پر ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت 24 جون تک ملتوی کردی۔ ملک میں تمام ریاستوں نے ملازمین وغیرہ کی تنخواہوں میں کٹوتی نہیں کی۔ پڑوسی ریاست آندھرا پردیش نے صرف دو ماہ تک ہی کٹوتی کی مگر ریاست تلنگانہ میں تنخواہوں کی کٹوتی کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ جس سے سرکاری ملازمین اور ان سے زیادہ وظیفہ یاب بہت پریشان ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنظیمیں ملازمین کے مفادات کے لئے کام نہیں کررہی ہیں بلکہ ملازمین تنظیموں کے نمائندے حکومت کے دباؤ میں کام کررہی ہیں۔ حکومت کی جانب سے صحافت کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے اور اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کی جانب سے فراموش کردیا گیا ہے۔ ان پر مخالف حکومت کا قہر لگادیا گیا ہے جس کے بعد اپوزیشن جماعتیں مختلف تنظیموں اور تنخواہوں کی جانب سے انصاف کے لئے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکٹایا جارہا ہے۔ چند مسائل پر حکومت عدالت کے فیصلوں سے بھی اتفاق نہیں کررہی ہے۔

اس کی دو مثالیں سامنے ہیں تنخواہوں کی کٹوتی پر عدالت کی پھٹکار کے بعد حکومت نے آرڈیننس جاری کردیا۔ نعشوں کے پوسٹ مارٹم کرنے ہائی کورٹ کے احکام کو حکومت نے سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے حکم التواء حاصل کیا ہے۔ کورونا کے معاملے میں بھی ریاستی و مرکزی حکومتوں نے ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے عوام کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ آئی سی ایم او اور تلنگانہ ہائی کورٹ کی پھٹکار کے بعد حکومت نے کورونا وائرس کے ٹسٹوں میں کسی قدر اضافہ کیا ہے جس کے بعد پازیٹیو کیسیس کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔ گریٹر حیدرآباد کورونا کے کیپٹل میں تبدیل ہوگیا ہے۔ یہ وباء اب اضلاع کو بھی تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ کورونا پازیٹیو کیسیس میں اسی قدر تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ ایک تا 1000 کیسیس تک پہنچنے کے لئے 31 دن لگے تھے اب تین تا چار دن میں کیسیس 1000 تک پہنچ رہے ہیں۔ مگر ہاسپٹلس میں متاثرین کو وہ سہولتیں میسر نہیں ہیں جو ہونی چاہئے۔ برقی بلز بھی غریب و متوسط طبقہ کے عوام پر بھاری بوجھ ثابت ہو رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے مالکین مکان کو تین ماہ تک کرائے وصول نہ کرنے اور خانگی اسکولس کی فیس میں اضافہ نہ کرنے کی ہدایت دی ہے مگر غریب عوام کے برقی۔ آب رسانی اور جائیداد ٹیکس معاف کرنے کے معاملے میں انسانی ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ تلنگانہ کے مجاہدین کی موت پر چیف منسٹر نے ان کے ارکان خاندان کو کبھی پرسہ نہیں دیا۔ ریاست میں سڑک حادثات ہوکہ ریلوے حادثات میں ہلاک ہونے والے افراد کے ارکان خاندان سے کبھی ملاقات نہیں، ہند ۔ چین کشیدگی کے دوران شہید ہونے والے تلنگانہ کے بی سنتوش بابو جن کا تلنگانہ سے تعلق ہے۔ ان کی نعش حیدرآباد لانے پر خراج پیش نہیں کیا اور ناہی آخری رسومات میں شرکت کی جبکہ گورنر تمیلی سائی سوندرا راجن نے حیدرآباد میں شہید کرنل سنتوش بابو کو خراج پیش کیا، جبکہ تلنگانہ تحریک کی مخالفت کرنے والے فلم اسٹار ہری کرشنا نے راجیہ سبھا میں تلنگانہ بل کی مخالفت کی اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بل کی منظوری کے بعد بطور احتجاج راجیہ سبھا کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے ان کے سڑک حادثہ میں موت واقع ہو جانے پر چیف منسٹر نے ان کے ارکان خاندان سے ملاقات کی اور پرسہ دیا۔ ہری کرشنا کی آخری رسومات ان کے فارم ہاوز رنگا ریڈی میں انجام دی جانے والی تھی۔ چیف منسٹر نے ان کے ارکان خاندان کو یادگار قائم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے انہیں حیدرآباد میں آخری رسومات انجام دینے کے لئے رضامند کیا۔ ان 6 سال کے دوران تلنگانہ تحریک میں حصہ لینے والے کئی مجاہدین فوت ہوگئے۔ چیف منسٹر نے انہیں خراج پیش کرنے ان کے ارکان خاندان سے ملاقات کرنے کی کوشش نہیں کی۔ چیف منسٹر کے اسمبلی حلقہ میں اسکول بس ٹرین حادثہ کا شکار ہوگئی جس میں کئی معصوم بچے زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ چیف منسٹر نے زحمی معصوم بچوں کی بھی عیادت نہیں کی، یہاں تک ضلع جگتیال میں آر ٹی سی بس حادثہ کا شکار ہوگئی جس میں 60 افراد ہلاک ہوگئے چیف منسٹر نے مقام حادثہ کا معائنہ کرنا بھی گوارہ نہیں کیا۔

ریاست میں اپوزیشن جماعتوں کو اپنی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ کووڈ ۔ 19 کے قواعد کا حولہ دیتے ہوئے پولیس کانگریس بی جے پی اور کمیونسٹ جماعتوں کے ارکان کو پہلے ہی گھروں میں نظربند کررہے ہیں یا کوئی پولیس کو چکمہ دے کر سڑکوں پر آرہے ہیں تو انہیں گرفتار کرلیا جارہا ہے۔ آبپاشی پراجکٹس کا دورہ کرنے کی کانگریس قائدین کو اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ مگر چیف منسٹر ہزاروں لوگوں کے ساتھ پراجکٹ کا افتتاح کررہے ہیں۔ برقی بلز میں اضافے کے احتجاج پر بی جے پی کے قائدین کو گرفتار کرلیا گیا، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ پر احتجاج کے فلاپ کمیونسٹ جماعتوں کے قائدین کو گرفتار کرلیا جارہا ہے۔ کووڈ بحران کے دوران چیف منسٹر اور وزرا اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں ہوئے ہیں مگر اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کے خلاف احتجاج درج کرانے سے روکا جارہا ہے۔ جس کے خلاف کانگریس ہائی کورٹ سے رجوع ہوئی۔ برقی شرحوں میں اضافہ اور بلز کی وصولی کے خلاف بھی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا ہے۔ لاک ڈاون کے دوران پولیس کی ظلم و زیادتی کے خلاف بھی عدالت سے عوام رجوع ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس کا ٹسٹ کرانے کی تعداد میں اضافہ اور ہاسپٹلس میں طبی عملہ کو کٹس فراہم کرنے کے لئے بھی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی گئی ہے۔ حکومت جمہوری انداز میں درج کئے جانے والے احتجاج اور میڈیا میں شائع و نشر ہونے والے عوامی مسائل کو اہمیت نہیں دے رہی ہے۔ جس کی وجہ سے عوام اور اپوزیشن جماعتیں ہائی کورٹ پر اپنا بھروسہ جتا رہے ہیں۔ یہاں تک مائیگرینٹ ورکرس کے مسائل کو بھی عدلیہ سے رجوع کیا گیا ہے۔ حکومت سے مایوسی ہونے کے بعد تلنگانہ میں اپوزیشن جماعتیں، رضاکارانہ تنظیمیں اور عوام ہائی کورٹ پر بھروسہ جتارہے ہیں اس سے حکومت کی ہٹ دھرمی اور من مانی آشکار ہو رہی ہے اور عدالتوں سے حکومت کو پھٹکار مل رہی ہے۔