غزوہ خندق میں حضرت علیؓ نے قریش کے مشہور شہ سوار عمر و بن عبدود کو وصل جہنم کر دیا

   

آئی ہرک کا تاریخ اسلام اجلاس۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی اور پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی کے لکچرس
حیدرآباد ۔29؍سپٹمبر( پریس نوٹ) غزوہ خندق میں مسلمان اور مشرکین تقریباً ایک مہینہ تک آمنے سامنے ہونے کے باوجود جنگ کی نوبت نہ آئی۔دونوں طرف سے تیر اندازی اور سنگ باری کی حد تک کاروائی ہوتی رہی۔قریش خندق میں کوئی ایسی جگہ تلاش کر رہے تھے جہاں سے اپنی فوج کو مسلمانوں کی جانب پہنچا سکیں لیکن انھیںکئی دنوں تک کامیابی نہیں ملی۔ تاہم مشرکین ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں سے وہ خندق عبور کرنے میں کامباب ہو ئے۔خندق عبور کرنے والوں میں نمایاں شخص عمرو بن عبدود تھا جسے اپنی طاقت، تجربہ اور بہادری پر بڑا نازتھا۔ وہ اس وقت سر سے پائوں تک آہن پوش تھا۔جب اس نے مبارزت طلب کی تو حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ نے اس کے مقابلہ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اجازت طلب کی۔رسول اللہؐ نے حضرت علیؓ کو اجازت مرحمت فرمائی اوران کے سر پر اپنے دست اقدس سے عمامہ باندھا اور اپنی خاص تلوار عطا کی۔ حضرت علیؓ نے عمرو بن عبد ود کو اسلام کی طرف دعوت دی لیکن اس نے انکار کر دیا اورلڑنے کے لئے آگے بڑھا۔دونوں میں کافی دیر مقابلہ ہوتا رہا۔آخرمیں حضرت علیؓ نے عمرو بن عبد ود کو واصل جہنم کر دیا اور جب مسلمانوں کو اس کا علم ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے اور تکبیر کہی۔اس واقعہ کے بعد دیگر قریش جو خندق پھاند کر آئے تھے، گھبراکر واپس چلے گئے۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میں ان حقائق کا اظہار کیا۔وہ اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل (انڈیا) آئی ہرک کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۳۷۴‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں واقعات غزوہ خندق پر اہل علم حضرات اور سامعین کرام کی کثیر تعداد سے شرف تخاطب حاصل کر رہے تھے۔ بعدہٗ ۳۰:۱۱ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت رسول اللہؐ کے ابن عم اور صحابی حضرت قثم ابن عباس ابن عبد المطلبؓؓ کے احوال شریف پر مبنی حقائق بیان کئے گئے۔ قراء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے اجلاس کا آغاز ہوا۔ پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی جائنٹ ڈائریکٹر آئی ہرک نے تصوف کے بنیادی اصولوں سے متعلق معلومات آفریں نکات پیش کئے بعدہٗ انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۱۱۰۱‘ واں سلسلہ وار، پر مغز اور مدلل لکچر دیا۔ ڈاکٹرسید محمد حمید الدین شرفی نے ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت حضرت قثم ابن عباسؓ کے احوال شریف کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت قثمؓ کئی خصوصیات سے ممتاز تھے۔ رسول اللہ ؐ کے چچا زاد بھائی ہوتے تھے۔ وہ حضرت عباسؓا بن عبد المطلب ابن ہاشم کے فرزند ارجمند تھے۔ انکی والدہ ماجدہ حضرت ام الفضل لبابہ بنت حارثؓ تھیں جنھیں ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ الکبریٰ ؓ کے بعد عورتوں میں پہلے مشرف بہ ایمان ہونے کا اعزاز ملا۔ اس طرح مکہ مکرمہ میں ایمان لانے والی مستورات میں وہ دوسری تھیں۔ حضرت قثمؓ بن عباسؓ رسول اللہ ؐ کے اقرباء میں سے تھے۔ حضرت قثمؓ کو رسول اللہ ؐ بہت عزیز رکھتے تھے۔ ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے کہا کہ حضرت قثمؓ کو ایک روایت کے بموجب یہ اعزاز بھی ملا کہ سرکار دوعالمؐکی رحلت شریف کے بعد جو لوگ لحد پاک میں اترے تھے ان میں یہ بھی شامل تھے۔ حضرت قثمؓ بہ عہد خلیفہ چہارم امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؓ مکہ مکرمہ کے عامل مقرر کئے گئے تھے اور حضرت علی ؓ کی شہادت تک اپنے اس منصب پر برقرار رہے۔ بعد ازاں حضرت قثمؓ سمرقند چلے گئے جہاں آپ کی شہادت کا سانحہ ہوا۔ حضرت قثمؓ کے خصائص مبارکہ میں یہ حقیقت نمایاں ہے کہ آپ حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت میں بھی یکتائے روزگار تھے۔ کثرت سے عبادت کیا کرتے ۔ قرآن پاک کی تلاوت کے ساتھ خاص شغف تھا۔ بڑے سخی اور دریا دل تھے۔