غزہ میںنسل کشی کب تک ؟

   

قتل و غارت گری زبوں حالی
آپ کے اقتدار کا عالم
غزہ میں اسرائیل کی جارحانہ اور ظالمانہ کارروائیوںکے تین ماہ پورے ہورہے ہیں اور ابھی تک وہاں نہتے اور بے بس فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے ۔ چار تا چھ دن کی جنگ بندی کے دوران غزہ میںفلسطینیوںکو زندہ رہنے کیلئے کچھ معمولی سی راحت اور امدادی ساز و سامان پہونچا کر ایسا لگتا ہے کہ دنیا بری الذمہ محسوس کر رہی ہے ۔ یہ سلسلہ اگر زیادہ دراز ہوجائے تو ایک پورے ملک کی تباہی کی وجہ بن سکتا ہے اور اس کے اثرات ایک پوری نسل پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ دنیا کو تخریب کاری اور شدت پسندی سے نجات دلانے کی کوششیں کرنے والی طاقتوں کو بھی یہ احساس نہیں ہو رہا ہے کہ ایک پوری نسل شدت پسندی کا شکار ہوسکتی ہے ۔ اگر مسلسل مظالم کا سلسلہ دراز کیا جاتا رہا تو پھر اس کے منفی اثرات سے کوئی بھی انکار نہیںکرسکتا ۔ آج غزہ میں ایسا لگتا ہے کہ فلسطینیوں کے وجود ہی کو مٹانے کی کوشش چل رہی ہے ۔ جس طرح سے معصوم بچوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اس کا مقصد ایک ہی ہوسکتا ہے کہ فلسطین کی آئندہ نسل کی گنجائش ہی باقی نہ رکھی جائے ۔ معصوم بچوں کو دواخانوں میں علاج کے دوران موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔ مریضوں تک کو زندہ رہنے اور علاج کی سہولت سے استفادہ کرنے کا موقع نہیںدیا جا رہا ہے اور ساری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرار داد پیش کی گئی تو امریکہ نے اس کو ویٹو کردیا ۔ اس طرح امریکہ نے اسرائیل کو فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی کی کھلی اجازت اور لائسنس دیدیا ہے ۔ یہ امریکہ کی بدترین پالیسی ہے کہ وہ اسرائیل کے مظالم کا تو جواز تلاش کرنے لگ جاتا ہے ۔ اسرائیل کی کٹھ پتلی کی طرح کام کرتا ہے لیکن نہتے اور بے یار و مددگار فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ روکنے کو تیار نہیں ہوتا ۔ برطانیہ نے بھی اس قرار داد کے حق میںووٹ نہیں دیا ۔ سارے رکن ممالک جنگ بندی کے حامی رہے ہیں جبکہ برطانیہ نے اس پر ووٹ نہیں دیا اور امریکہ نے اس قرار داد کو مسترد کردیا ۔ یہ فیصلہ در اصل امریکہ کو ملنے والے حق استرداد کا بدترین استعمال رہا ہے اور اس سے امریکہ بھی فلسطینیوں کے خون کا ذمہ دار ہوگیا ہے ۔
آج نہتے فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے میں یہود و نصاری ایک ہوگئے ہیں۔ یہودی مسلسل نسل کشی کو جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ نصاری ان کی مدد کر رہے ہیں۔ اس سلسلہ کو روکنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ امریکہ ساری دنیا میں انسانی حقوق کی بات کرتا ہے اور خاص طور پر خون خرابہ روکنے کی بات کرتا ہے لیکن وہی امریکہ فلسطین میں اس بات سے مکر جاتا ہے ۔ یہاں نہ صرف یہ کہ اسرائیل کی بہیمانہ ‘ ظالمانہ اور انسانیت سوز حرکات کی حمایت کی جاتی ہے بلکہ اس کو روکنے سے بھی انکار کیا جاتا ہے ۔ آج ساری دنیا جس طرح سے غزہ میں نسل کشی کی اجازت دے رہی ہے اسے یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سلسلہ اگر دراز ہوجائے تو پھر اس کے سنگین عواقب و نتائج بھی ہوسکتے ہیں۔ جس طرح یہود و نصاری فلسطینیوں کے صفائے کی مہم میں ایک ہوگئے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ مسلم اور عرب ممالک غزہ میں جاری ظالمانہ کارروائیوںکو روکنے کیلئے صرف لب کشائی کے کچھ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ نہ اسرائیل پر دباو ڈالا جارہا ہے اور نہ ہی امریکہ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی جا رہی ہے ۔ یہی وہ خاموشی ہے جو غزہ میں نہتے فلسطینیوں کے صفائے اور نسل کشی کی وجہ بن رہی ہے ۔ اس کے ذمہ دار مسلم ممالک بھی قرار دئے جاسکتے ہیں۔ انہیں ایک آواز میں فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے کی صدا بلا کسی تاخیر کے بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔
دنیا کو یاد رکھنا ہوگا کہ اسرائیل ظلم کی بنیاد پر اور غاصبانہ قبضہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے ۔ یہ وہی ملک ہے جس کو عرب ممالک نے استحکام بخشا ہے ۔ اگر اس کی ظالمانہ کارروائیوں اور غاصبانہ قبضوں کو ابتداء ہی میں روکا جاتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی ۔ امریکہ اور اس کے حواری عالمی طاقتوں سے کسی انصاف کی امید کرنا فضول ہی ہوگیا ہے ۔ اب عرب اور مسلم حکمرانوں کو اس ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے آگے آنا چاہئے ۔ صرف پرتعیش محلوں میں بیٹھ کر بیان بازیوں سے کچھ ہونے والا ہے ۔ قتل عام اور نسل کشی کا سلسلہ جتنا زیادہ دراز ہوتا جائیگا اتنی ہی زیادہ ذمہ داری ان حکممرانوں پر بھی عائد ہوتی چلی جائے گی ۔