غزہ کے شہری شدید قحط کی دہلیز پر،غذائی مصنوعات کی ترسیل بند

,

   

مسلح جھڑپوں میں شہریوں کے تحفظ کے زیرعنوان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بحث

غزہ : غزہ پٹّی کی پوری آبادی خوراک کی محتاج ہے لیکن آبادی کا ایک چوتھائی حصہ شدید غذائی قلت کی وجہ سے قحط کی دہلیز پر آ پہنچا ہے۔مسلح جھڑپوں میں شہریوں کے تحفظ کے زیرِ عنوان منعقدہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی نشست میں غزّہ میں غذائی عدم تحفظ کے پیدا کردہ خطرات پر بحث کی گئی ہے۔اجلاس سے خطاب میں اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت FAO کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ‘ماوریزیو مارٹینا’ نے کہا ہے کہ اس وقت، جھڑپوں کی وجہ سے، غزّہ کے عوام کو خوفناک سطح پر غذائی عدم تحفظ اور شدید پیمانے پر قحط کا خطرہ درپیش ہے۔ 9 اکتوبر سے جاری اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے علاقے کے لئے غذائی مصنوعات، بجلی اور ایندھن کی ترسیل یا تو مکمل بند ہے یا پھر انتہائی محدود ہو گئی ہے۔ یہی نہیں علاقے کا پانی بھی کاٹا جا رہا ہے۔مارٹینا نے کہا ہے کہ علاقے میں، جھڑپوں کے آغاز یعنی 7 اکتوبر سے قبل کے مقابلے میں، پانی کی ترسیل 7 فیصد کم ہو گئی ہے۔ غزّہ کے زیرِ زمین پانی کا بھی 97 فیصد انسانی استعمال کے لئے موزوں نہیں ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ علاقے میں قحط کے سدّباب کے لئے جھڑپوں کا فوری طور پر خاتمہ اور انسانی امداد کی ترسیل انتہائی ضروری ہے۔عالمی غذائی پروگرام WFP کے ڈپٹی منتظمِ اعلیٰ ‘کارل سکاو’ نے کہا ہے کہ ” اس وقت غزّہ میں 2،2 ملین آبادی کا تقریباً سارے کا سارا بنیادی خوراک کا محتاج ہے۔ اگر فائر بندی کا سمجھوتہ طے پاتا ہے تو WFPاپنے امدادی کاموں کو پھیلانے کے لئے تیار ہے۔ علاقے کے لئے بنیادی غذائی مصنوعات کی ناکافی ترسیل کے باعث قحط کے خطرے میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ قحط کی روک تھام کے لئے علاقے میں کہیں زیادہ خوراک کی ترسیل کی اور صحت سمیت تمام بنیادی خدمات کی دوبارہ بحالی کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف اقوام متحدہ کی مہاجر ایجنسی UNRWA کر سکتی ہے۔سکاو نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل کا، 2018 میں منظور کردہ، 2417 نمبر فیصلہ جھڑپوں اور غذائی عدم تحفظ کے باہمی شیطانی دائرے کو توڑ نے کا اہل ہے۔ ہم آج کونسل سے اپیل کرتے ہیں کہ اس فیصلے کا اطلاق کیا جائے ۔اقوام متحدہ انسانی امدادی کوآرڈینیشن آفس OCHA کے نمائندہ برائے جنیوا اور شعبہ کوآرڈینیشن کے سربراہ رامیش راجاسنگھم نے کہا ہے کہ غزّہ کے شمال میں 2 سال سے کم عمر ہر 6 بچوں میں سے 1 شدید غذائی کمی کا شکار ہے۔