فتح مکہ

   

سید نصیر الدین احمد
سنہ ۶ ہجری میں صلح حدیبیہ ہوئی۔ قریش دو سال تک صلح حدیبیہ کی شرائط پر عمل کرتے رہے، لیکن اس کے بعد خلاف ورزی شروع کردی۔ انھوں نے اپنے حلیف قبیلہ بنوبکر کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے حلیف قبیلہ خزاعہ پر حملہ کردیا، جو معاہدہ حدیبیہ کی سنگین خلاف ورزی تھی۔ اس مسئلہ کو سفارتی سطح پر حل کرنے کی خاطر حضور ﷺنے قریش کے پاس اپنا سفیر بھیجا اور تین شرائط پیش کیں کہ ان میں سے کوئی ایک منظور کی جائے (۱) مقتولوں کا خوں بہا دیا جائے (۲) قریش فوراً بنوبکر کی حمایت سے الگ ہو جائیں اور (۳) معاہدہ حدیبیہ کے ٹوٹ جانے کا اعلان کردیا جائے۔ قریش نے تیسری شرط منظور کرلی اور تنسیخ معاہدہ کا اعلان بھی کردیا۔ بعد میں اپنی اس غلطی کے نتائج پر وہ سخت نادم ہوئے۔ انھوں نے تجدید معاہدہ کی خاطر ابو سفیان کو اپنا سفیر بناکر مدینہ بھیجا، لیکن وہ ناامید واپس ہوئے۔ ۱۰؍ رمضان سنہ ۸ ہجری کو حضور ﷺدس ہزار مجاہدین کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ قریش کو مسلمانوں کے لشکر کی اطلاع ملی تو حیران رہ گئے۔ انھوں نے پھر ابوسفیان، بدیل بن ورقا اور حکیم بن حزام کو بھیجا۔ ابو سفیان پکڑ لئے گئے، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں پناہ دی اور کہا کہ اسلام قبول کرلو ورنہ لوگ ابھی تمہاری گردن اُڑا دیں گے۔ ابوسفیان نے اسی وقت اسلام قبول کرلیا اور حضور ﷺنے انھیں معاف کردیا۔
لشکر اسلام کو مکہ کی طرف پیش قدمی کا حکم دینے سے پہلے حضور اکرم ﷺ نے لشکر قریش میں اعلان کروا دیا کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا یا ابو سفیان کے ہاں پناہ لے گا یا گھر کا دروازہ بند کرلے گا یا خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے گا اسے معاف کردیا جائے گا۔ یہ عام معافی کا اعلان تھا، جس کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ ۲۰؍ رمضان سنہ ۸ ہجری کو مسلمانوں نے بلا مقابلہ مکہ فتح کرلیا اور قریش کی مزاحمت کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا۔ آپ جب حرم کعبہ میں داخل ہوئے تو عصاء کی نوک سے ایک ایک بت کو ٹھوکا دیتے جاتے اور ساتھ ساتھ یہ کہتے جاتے ’’حق آگیا اور باطل نابود ہو گیا، بے شک باطل نابود ہونے والا ہے‘‘۔ آپ نے بیت اللہ کا دروازہ کھلوایا، حضرات بلال اور طلحہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ اندر داخل ہوئے، تکبیریں کہی اور نماز پڑھی۔
فتح مکہ کے بعد مسلمان عملاً عرب کے حکمراں بن چکے تھے۔ آپ کے سامنے اب قیصر و کسریٰ کے استحصالی معاشرے تھے، جن کی بنیادوں میں انقلاب لاکر ان کی تعمیر تو کرنا تھا، لہذا آپ نے فتح مکہ کے بعد جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں خطاب صرف اہل مکہ سے نہیں، بلکہ تمام نسل انسانی سے تھا۔ آپ نے فرمایا ’’اللہ کے سواء اور کوئی الٰہ نہیں ہے، وہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس نے اپنا وعدہ سچا کیا اور اپنے بندہ کی مدد کی اور تمام جتھوں (جماعتوں) کو تنہا چھوڑ دیا۔ خبردار! ہر قسم کا مطالبہ خواہ وہ خون کا مطالبہ ہو یا مال کا، میرے پاؤں کے نیچے ہے (یعنی منسوخ اور ممنوع ہے) البتہ بیت اللہ کی تولیت یا دربانی اور حاجیوں کو پانی پلانے کے مناصب مستثنی یعنی جوں کے توں ہیں۔ اے گروہ قریش! آج کے دن اللہ نے تم سے جاہلیت کا غرور چھین لیا اور آبا و اجداد کے بل پر بڑائی حرام کردی۔ کل بنی نوع انسان آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔ آپ نے سورہ حجرات کی آیت تلاوت فرمائی ’’لوگو! ہم نے تم کو مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے، تاکہ ایک دوسرے کی شناخت کرو۔ بے شک اللہ تعالی کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ متقی ہے۔ بلا شبہ اللہ سب کچھ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے‘‘۔
خطبہ ختم ہوا تو حضور ﷺنے اہل مکہ سے فرمایا ’’تم جانتے ہو کہ میں تم سے کیا سلوک کرنے والا ہوں‘‘۔ قریش کو اپنے مظالم کا احساس تو تھا، لیکن رحمۃ للعالمین ﷺکے رحم و کرم اور عفو و درگزر کا شعور بھی تھا۔ ایک زبان ہوکر بول اٹھے ’’آپ بخشش و کرم کرنے والے بھائی اور بخشش و کرم کرنے والے بھائی کے بیٹے ہیں‘‘۔ آپ نے برملا اعلان فرمایا ’’آج تم پر کوئی مواخذہ نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو‘‘۔ اس عفو عام کے بعد جب اذان کا وقت آیا تو حضور ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دیں۔ اللہ کے گھر پر چڑھ کر اللہ کی توحید کا اعلان کریں۔ حضرت بلال نے اس کی تعمیل کی۔ مکہ معظمہ کا نظم و نسق درست کرنے اور تحریک اسلام کو جاری رکھنے کا اہتمام کرنے کے بعد حضور ﷺمدینہ منورہ تشریف لے گئے اور ان دونوں امور کی نگرانی کے فرائض حضرت معاذ بن جبل ؓکو تفویض ہوئے۔
قریش تحریک اسلام کے اولین دشمن تھے اور انھوں نے اس کو اپنے وقار و حمیت کا مسئلہ بنا لیا تھا، لیکن اس کے باوجود ان کا مسلمانوں کے خلاف ہتھیار نہ اٹھانا اور بلا مزاحمت مکہ معظمہ اور بیت اللہ کو ان کے حوالے کردینا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا کارنامہ ہے، جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ تاریخ ساز واقعہ آپ کے بے مثال تدبر اور منصوبہ بندی میں مہارت پر دلالت کرتا ہے۔ (استفادہ: کتب سیرت و تاریخ اسلام)