فرانس کی ’انتہا پسند مسلم عناصر‘کیخلاف کارروائی، ترکی سے تعلقات کشیدہ

,

   

ٹیچر کو جس ظالمانہ طریقہ سے قتل کیا گیا، اس کے بعد یہ تو ہونا ہی تھا : تجزیہ نگار

پیرس: فرانس کے دارالحکومت پیرس کے شمال مشرقی علاقے پینتن میں واقع ایک مسجد میں جو نظر آیا، اس سے اندازہ ہوا کہ شاید اس بار حالات مختلف ہیں۔یہ عمارت دیکھنے میں بڑے بڑے ہوائی جہازوں کے ہینگر کی طرز پر تعمیر کی گئی ہے، جہاں ان کی مرمت اور دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ لیکن یہ مسجد خالی تھی اور بند تھی۔مسجد کے باہر ایک سرکاری حکم نامہ چسپاں تھا جس پر درج تھا کہ ‘اسلام پسند تحریک’ چلانے کی مہم میں ملوث ہونے کے باعث اور حال ہی میں قتل کیے جانے والے فرانسیسی استاد سیموئیل پیٹی کو نشانہ بنانے والی ویڈیوز سوشل میڈیا پر جاری کرنے کی وجہ سے اس مسجد کو بند کر دیا گیا ہے۔پیرس میں سیموئل پیٹی کے قتل کے بعد فرانسیسی حکومت کی جانب سے ‘اسلامی انتہا پسندی’ کے خلاف لیے گئے برق رفتار اقدامات بہت سخت رہے ہیں۔اس حوالے سے حکومت نے مختلف انکوائری کمیٹیاں بنانے کا فیصلہ کیا، بہت کچھ بند کرنے کا حکم دیا اور نئے اقدامات اور تجاویز کا اتنا انبار لگ گیا ہے کہ ایک ایک کو یاد رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔خبروں کے مطابق فرانس کے صدر ایمینوئل میکخواں نے اپنی دفاعی کونسل کو گذشتہ ہفتے بتایا کہ کہا ‘خوف اب اپنا رخ تبدیل کر لے گا۔’ حکومت نے اس واقعے کے بعد مختلف اقدامات کا اعلان کیا ہے جس میں 120 مکانات کی تلاشی لینا، اْن تنظیموں کو تحلیل کرنے کا حکم جن پر الزام ہے کہ وہ اسلام پسند بیانیے کو فروغ دے رہے ہیں، دہشت گردوں کی ملنے والی مالی امداد کو نشانہ بنانا، اساتذہ کے لیے مزید حمایت اور سماجی رابطوں کی کمپنیوں پر مواد کی موثر نگرانی کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب فرانسیسی صدر کے دورِ حکومت میں اس نوعیت کے واقعات ہوئے ہوں۔ اب تک ان کی دور صدارت میں تقریباً 20 افراد بیہمانہ طریقے سے قتل کیے جا چکے ہیں جن میں پولیس کے اہلکار، ایک نوجوان خاتون اور کرسمس کے بازار میں خریدار شامل ہیں۔لیکن اس بار ایسا کیا ہوا کہ حکومت اس قدر سخت اقدامات کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ جیروم فورقؤیٹ ایک سیاسی تجزیہ نگار ہیں جن کا کہنا ہے کہ یہ حملہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں ایک استاد کو نشانہ بنایا گیا اور جس ظالم طریقے سے ان کو قتل کیا گیا، اس کے بعد ایسا ہونا ہی تھا کہ حکومت اپنے اقدامات کی شدت میں تبدیلی لائے۔’اب ہم منظم جہادی نیٹ ورک کا سامنا نہیں کر رہے، بلکہ ہمارا مقابلہ ان دہشت گردوں سے ہے جو ہمارے ملک میں ہی بستے ہیں، ایسے بھٹکے ہوئے افراد جو کہ اب انتہا پسند خیالات کے حامی ہو گئے ہیں۔ حکومت کو لگتا ہے کہ اب صرف قانون کے نفاذ کے حوالے سے جواب دینا کافی نہیں ہوگا۔ ان کو اب سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی دھیان دینا ہوگا اور تنظیموں پر بھی، کیونکہ ہم نے اس واقعہ میں دیکھا کہ کس طرح لوگوں کے ذہنوں میں نفرت بھری جاتی ہے۔