فسادات میں کانسٹبل کی موت۔ دہلی پولیس کی چارج شیٹ میں یوگیندر یادو کا نام شامل

,

   

انہوں نے کہاکہ”میری تقریر عوام میں ہے۔ تشددبھڑکانے والی ایک بات کی اس میں نشاندہی کریں“۔
نئی دہلی۔ سوراج انڈیا کے صدر یوگیندر یادو‘ اسٹوڈنٹ لیڈر کاول پریت کور اور ایڈوکیٹ ڈی ایس بندرا کے نام دہلی پولیس کی اس چارج شیٹ میں شامل ہیں جو فبروری میں نارتھ ایسٹ دہلی فسادات کے دوران 42سالہ کا ہیڈ کانسٹبل رتن لال کی موت کیس کے ضمن میں درج کی گئی ہے۔

جبکہ 17ملزمین میں ان تینوں کے نام شامل نہیں‘ چارج شیٹ میں کہاگیا ہے کہ ”چاند باغ کے احتجاجی مقام کے منتظمین کے تار ڈی ایس بندرا(اے ائی ایم ائی ایم)‘ کاول پریت کور(اے ائی ایس اے)‘ دیونگانا کالیتا(پنجرہ توڑ) صفورہ‘ یوگیندر یادو وغیر ہ سے ملتے ہیں‘ خود ہی تشدد کے پس پردہ ایجنڈہ کی طرف اشارہ کرتا ہے“۔

پولیس کے مطابق چاند باغ کا احتجاج وسطی جنوری سے جاری ہے۔ فبروری 24کے روز داخل کی گئی چارج شیٹ کے مطابق ”نارتھ ایسٹ دہلی میں سنگین فرقہ وارانہ فسادات پیش ائے‘ جس میں 750سے زائد لوگوں پر مقدمہ درج کیاگیاہے‘ 53لوگوں نے جان گنوائی‘جس میں دہلی پولیس کے ہیڈ کانسٹبل رتن لال بھی شامل ہیں“۔

چارج شیٹ میں کہاگیاہے کہ ”لال‘ اے سی پی (گوکل پوری) او رڈی سی پی (شاہادارا) اور دیگر کچھ پولیس افسروں کے ہمراہ‘ہجومی حملے کے دوران چاند باغ کے احتجاجی دھرنے کے مقام کے قریب تھے‘ وہ وزیر آباد روڈ کے سڑک ر بنے پانچ فٹ کے ڈیوائڈر سے چھلانگ لگانے سے وہ قاصر تھے‘ان پر گولی چلانے اور پتھر کا مار پڑنے کے بعد وہ موقع پر ہی ڈھیرہوگئے تھے“۔

مذکورہ چارج شیٹ میں ذکر کیاگیا ہے کہ لال کو”لاٹھیوں او رراڈس سے پیٹا گیاتھا۔انہیں جی ٹی بی اسپتال لے جایاگیاتھا جہاں پر انہیں مردہ قراردیدیا‘تھا۔ان کا پوسٹ مارٹم 25فبروری کے روز کیاگیاتھا اور چارج شیٹ کے بموجب”اس میں انکشاف ہوا ہے کہ لال کی موت بندوق کی گولی سے لگے زخم سے ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ 21ضربات لال کے جسم پر لگائے ہوئے تھے“۔مذکورہ دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے 8جون کے روز میٹروپولٹین مجسٹریٹ راکیش کمار کے پاس یہ چارج شیٹ داخل کی ہے۔لال کے قتل معاملے میں 17ملزمین جو ہیں ان کی عمر18اور 50سال کی ہے اور ان میں زیادہ تر چاند باغ کے باشندے ہیں‘ بعض پڑوس کے علاقوں جیسے پریم نگر’مصطفےٰ آباد اور جات پوری کے رہنے والے لوگ ہیں۔

چارج شیٹ میں یادو کا نام بھی چاند باغ دھرنے کے مقام سے عینی شاہدین کے بیان میں یادو کا نام سامنے آیا ہے۔ چارج میں عینی شاہدین کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ”یہاں پر احتجاج ہوا۔

باہر سے ائے ہوئے لوگ جیسے ایڈوکیٹ بھانو پرتاب‘ بندرا‘ یادو او رجے این یو‘ جامعہ اور ڈی یو کے کئی اسٹوڈنٹس یہاں پر آرہے تھے‘ جو حکومت اور این آرسی کے خلاف بات کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کے مسلمانوں کو برہم ہونا چاہئے۔ اس کا سلسلہ جنوری سے فبروری 24تک پچاس دن جاری رہاتھا“۔

چارچ شیٹ میں ان کے خلاف عینی شاہدین اور ملزمین کے رول کے متعلق درج دفعات کے متعلق کہاگیا ہے”وہ کاول پریت کور(اے ائی ایس اے)‘ دیو انگانہ کالیتا(پنجرہ توڑ)‘ صفورہ‘ یوگیندر یادو‘ وغیرہ اکثر احتجاج کے مقام پر آتے اور نفرت پر مشتمل تقریریں کرتے اور لوگوں کو تشدد پر اکساتے تھے“۔

یادو نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ”جو کچھ بھی میں نے تقریر میں کہاہے وہ عوامی پلیٹ فارم پر ہے۔ مہربانی فرماکر اکسانے کی ایک مثال پیش کریں‘ جس میں راست میں نے کسی قسم کے تشدد کے لئے اکسایاہے“۔کور نے کہاکہ ”وہ چارج شیٹ دیکھنے کے بعد کوئی تبصرہ کریں گے“۔

وکیل بندرا کو بھی چارج شیٹ میں ”ایک سازشی“ کے طور پر پیش کیاگیاہے۔اس میں کہاگیاہے کہ ”ایسا انکشاف ہوا ہے کہ انہو ں نے ایک کمیونٹی کچن‘ لنگر‘ چاند باغ میں پہلے قائم کیاتھا۔

ان کے ساتھ کچھ مقامی باشندے بھی ائے جنہیں ہم مقامی آرگنائزر مانتے ہیں۔سازشی کی مقامی آرگنائزرس سے مسلسل رابطہ 24فبروری کے روز تشدد بھڑکنے تک جاری رہا تھا“۔

چارج شیٹ میں پولیس کا دعوی کیاہے ”اس مقام پر تشدد میں بندرا‘ سلمان صدیقی‘ سلیم خان‘ سلیم منا‘ شادات اور اطہر اور دیگر کا مقامی فسادیوں کے ساتھ تال میل تھا“۔ خیمہ اور لنگر کا انتظام احتجاجیوں کے لئے کیاجارہاتھا“۔

بندرہ نے انڈین ایکسپریس کو بتایاکہ”پانچ سال سے میں لنگر لگارہاہوں‘ اور مجھے چاند باغ سے درخواست ملی تھی۔مجھے تاریخ یاد نہیں ہے۔ میں نہ صرف لنگر لگایا ہے‘ کس طرح میں تشدد کا ذمہ دار ہوسکتاہوں“۔ دہلی پولیس کے پی آر او راندھاوا نے چارچ شیٹ پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کیاہے۔