فسادمتاثرین کو ’جبری‘ قومی ترانہ پڑھانے کے معاملے میں دہلی پولیس سے پوچھ تاچھ

,

   

فبروری 25کو مذکورہ واقعہ ایک ویڈیو وائیرل ہوا تھا۔ ویڈیو میں موجود ایک شخص23 سالہ فیضان کچھ دنوں بعد فوت ہوگیاتھا

نئی دہلی۔سوشیل میڈیا پر فبروری کے مہینے میں 23سالہ فیضان کا ویڈیو وائیرل ہوا تھا۔ دہلی فسادات کے دوران یہ ویڈیونکالاگیاتھا‘ جس میں پانچ لوگوں کے ساتھ پولیس جوانوں کے ایک گروپ کی بدسلوکی کی منظر کشی کی گئی تھی‘

YouTube video

جو زمین پر پڑے درد سے کرانج رہے تھے‘ اور انہیں قومی ترانہ اور ’وندے ماترم‘ گانے کے لئے مجبور کیاجارہاتھا۔

فیضان جو گولی لگنے کی وجہہ سے زخمی تھا فبروری28کے روز جاں بحق ہوگیا۔ انڈین ایکسپرس کی رپورٹ کے بموجب چھ ماہ سے زائد عرصہ گذرنے کے بعد دہلی مصلح پولیس کے ایک افیسر کو اس واقعہ کے ضمن میں پوچھ تاچھ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

وہیں فبروری 25کے روز یہ ویڈیو منظرعام پر آیاتھا جس کی منظر کشی ایک روزقبل رات میں کردم پوری علاقے میں بدسلوکی کرنے والے پولیس جوانوں نے کی تھی۔

زخمی حالت میں فیضان کو ایل این جے پی اسپتال میں داخل کیاگیاتھا جہاں پر تین روز بعد وہ زخموں سے جانبر نہ ہوسکاتھا۔

دی وائر نے 3مارچ کے روز فیضان کی والد قسمتون سے بات کی جنھوں نے تصدیق کی تھی ویڈیو میں دیکھائی دینے والوں میں سے ایک فیضان ہے۔

پولیس کی بدسلوکی کے سبب فیضان کی موت ہونے کا بھی انہوں نے دعوی کیاتھا۔

انڈین ایکسپریس کے مہیندر سنگھ مانرال کے بموجب مذکورہ کرائم برانچ کی جانب سے فیضان کی موت کے اردگرد کی گئی تحقیقات کی وجہہ سے ایک اور ویڈیوکے ہاتھ لگنے میں مدد ملی تھی‘ جو دور سے شوٹ کیاگیاتھا۔

اس ویڈیو میں تحقیقات کرنے والوں کو پتہ چلا کہ پولیس جوانوں میں سے ایک نے ٹی ایس ایم اٹھائے رکھا تھا۔ انڈین ایکسپریس کی اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ کسی بھی دستے کی اگر کہیں تعیناتی کی ہے تو جوانوں کو ان کے یونٹ او رنام کے ساتھ ٹی ایس ایم کی اجرائی عمل میں لائی جاتی ہے۔

مذکورہ نیوز پیپر کی خبر ہے کہ ”تحقیقات کرنے والے افسران نے علاقے کے باہر سے دستوں کے راجسٹرار کی جانچ کی تاکہ اس روز جاری کردہ ٹی ایس ایمز کے ادخال کے متعلق معلومات حاصل کئے جاسکیں۔

فوٹیج اور ایک اندراج کی بنیاد پر ان کی شناخت ڈی اے پی کے ساتھ تعیناتی ایک جوان کے طور پر ہوئی تھی“۔

خصوصی تحقیقاتی ٹیم(ایس ائی ٹی) نے پوچھ تاچھ کے لئے اس افیسر کو طلب کیا اور دعوی کیا ہے کہ وہ معاملے میں ملوث نہیں تھا۔ ایک ذرائع سے نیوز پیپر نے بتایا کہ مزید تحقیقات اس ضمن میں جاری ہے۔

تحقیقات کرنے والوں کا ماننا ہے کہ پوچھ تاچھ کے لئے جس پولیس عہدیدار کو طلب کیاگیاتھا اس نے زمین پر پڑے لوگوں کی ویڈیو نکالی ہوگی۔

دوسرا ویڈیو دوسرے سے لیاگیاتھا‘ جس میں دیکھا یاگیا ہے کہ گروپ میں چھ پولیس جوان شامل ہیں‘ انڈین ایکسپرس کے بموجب ماباقی جوانوں کے متعلق تحقیقاتی افسران کے پاس کوئی شواہد نہیں ہیں۔

مذکورہ ایف ائی آر
اس واقعہ کے ضمن میں 28فبروری کے روز بھجن پورا پولیس اسٹیشن میں ایک ایف ائی آر درج کرائی گئی تھی۔ بعدازاں معاملہ کرائم برانچ کو منتقل کردیاگیاتھا۔

اس وقت تحقیقات آگے بڑھی جب جون میں ہاف پوسٹ انڈیا نے رپورٹ میں کہاکہایف ائی آر میں فیضان کے ساتھ پولیس مارپیٹ کے ویڈیو فوٹیج کا واضح دستاویزکے طور پر ذکر نہیں کیاہے۔

اس کے علاوہ ایف ائی آر پولیس کے ان ریکارڈ دئے گئے بیان کے برعکس ہے جس میں کہاگیاتھا کہ فیضان مارپیٹ کے بعد پولیس کی تحویل میں تھا اور دعوی کیاگیا ہے کہ نارتھ ایسٹ دہلی میں گرو تیج بہادر اسپتال سے لاپتہ ہونے کے بعد اس کی موت ہوئی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاتھا کہ فیضان کی فیملی کو اپنا بیان بدلنے کے لئے مجبور بھی کیاجارہا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ ایک رپورٹ میں دہلی پولیس کو فسادات میں ملوث ہونے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا بھی مورد الزام ٹہرایاگیاہے

۔اس رپورٹ میں وزرات داخلی امورکی”اب تک دہلی پولیس کو جوابدہ ٹہرانے“ میں ناکامی پر تاسف کا اظہار کیاگیاہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ”سوشیل میڈیا پلیٹ فارم پر ان (پولیس کی) خلاف ورزی کے متعدد نشریات کے باوجود یہ ہے“