فوج میں خودکشی کے واقعات سنگین مسئلہ

   

اشوک کمار
ایک ایسے وقت جبکہ ہم 23 واں کارگل وجئے دیوس منانے کیلئے تیار ہیں ، 500 سے زائد سپاہیوں کی ہلاکت کا سوگ منا رہے ہیں۔ ان متوفی سپاہیوں میں سے اکثر اپنی جوانی کے ابتدائی حصہ میں تھے۔ ایک اور اہم چیز ہے جو ہمارے ضمیر پر بہت بڑا بوجھ بنی ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے جتنے بھی فوجی خودکشی کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کررہے ہیں یا مررہے ہیں، اس کی وجوہات جنگی نہیں بلکہ غیرجنگی ہیں۔ ہمارے فوجیوں کی خودکشی کے واقعات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں 819 سپاہیوں نے خودکشی کی جن میں سے 642 فوج، 29 بحریہ اور 148 ہندوستانی فضائیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار مرکزی مملکتی وزیر دفاع اجئے بھٹ نے راجیہ سبھا میں جاریہ ہفتہ پیش کئے۔ فوجیوں یا سپاہیوں کا اس طرح کثیر تعداد میں اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرنا، ایک پریشان کن بات ہے اور اگر طبعی اموات کی تفصیلات بھی اس میں شامل کی جائے تو یہ بہت زیادہ تشویشناک ہوگی۔ ان سپاہیوں کی خودکشی کے واقعات سے یقینا ان کے خاندانوں کو جو غم ہوا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ساتھ ہی یہ نہ صرف تربیت یافتہ افرادی قوت سے محرومی ہے بلکہ اس قسم کے واقعات فوج کی اکائیوں اور ذیلی اکائیوں میں دیگر فوجیوں کے عزم و حوصلوں پر بھی اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ فوج کے تینوں شعبوں میں خودکشی کا رجحان جس انداز میں زور پکڑتا جارہا ہے، اس کے انسداد کیلئے فوری طور پر سرجیکل اسٹرائیک کی ضرورت ہے۔ فوجیوں کی خودکشی واقعات نے دفاعی فورسیس کی توجہ اپنی جانب مبذول کردی ہیں اور اس سنگین مسئلہ کو ڈیفنس انسٹیٹیوٹ آف سائیکالوجیکل ریسرچ (DIPR) سے رجوع کردیا گیا ہے جس پر اس ادارے نے فوجیوں میں خودکشی کے رجحان کو روکنے مختلف سفارشات اور تجاویز پیش کی ہیں جس میں سے چند یہ ہیں کہ فوجیوں کو وقت پر رخصت دی جائے یعنی ان کی جانب سے پیش کی جانے والی رخصت کی درخواستیں منظور کی جائیں۔ ان کو دیئے جانے والے الاؤنسیس میں اضافہ کیا جائے اور اس پر عمل آوری کی جائے۔ مزید یہ کہ بعض یونٹس نے کچھ اضافی احتیاطی اقدامات اپنائے ہیں جیسے کونسلنگ، ہیلپ لائنس اور طبی امداد (میڈیکل سپورٹ) وغیرہ۔ یہ احتیاطی اقدامات اس لئے اپنائے گئے تاکہ تمام درجات کے سپاہیوں کی مثبت دماغی صحت کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے باوجود فوجیوں میں خودکشی کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں جبکہ اس معاملے میں ادارہ جاتی میکانزم کی ضرورت ہے۔ ہندوستانی فوج میں پائے جانے والے خودکشی کے رجحان کے سدباب کیلئے یہاں چند پہلو اور سفارشات پیش کئے جارہے ہیں۔ یہ ایسی سفارشات ہیں جو فوج کو خودکشی واقعات کے سنگین بحران سے بچا سکتے ہیں۔
نفسیاتی جائزہ
سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ فوج میں بھرتی کے دوران جسمانی، طبی، تحریری اور دیگر پہلوؤں کو مدنظر رکھا جاتا ہے، ایسے میں اب اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ فوج میں شمولیت کے مرحلہ میں امیدوار کے نفسیات کا بھی جائزہ لیا جائے تاکہ ایسے امیدواروں کو جن میں خودکشی کرنے کے رجحانات پائے جاتے ہیں یا خودکشی کی جانب ان کا میلان اور جھکاؤ دکھائی دیتا ہے تو انہیں فوج میں بھرتی کرنے سے گریز کیا جاسکتا ہے۔ یقینا اس مشورہ پر عمل آوری ایک چیلنج ہوگا لیکن فوج میں بھرتی ہونے والوں کا نفسیاتی جائزہ لیا جانا چاہئے تاکہ امیدواروں میں اس بات کا پتہ لگ سکے کہ آیا وہ منفی خیالات تو نہیں رکھتے، ان میں ذہنی دباؤ یا ذہنی تناؤ کی کیفیت بہت زیادہ تو نہیں پائی جاتی؟ یہ نفسیاتی جائزہ تمام درجوں اور زمروں کے تحت بھرتیوں کے دوران کیا جانا چاہئے، نہ کہ آفیسر درجہ سے کمتر درجہ کے سپاہیوں کا ہی جائزہ ہو۔ اس طرح کے جائزوں کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ کیریئر کے درمیانی مرحلہ میں خودکشیوں کے واقعات کو روکنا بہت پیچیدہ ہے کیونکہ فوج میں شامل ہونے سے لے کر ازدواجی تعلقات (شادی شدہ زندگی) میں داخل ہونے تک کسی بھی فرد کو زندگی کی مختلف حرکیات و مسائل سے نمٹنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کیلئے نئی نفسیاتی جانچ اس عمر ؍ خدمات کے ضمن میں کی جاتی ہے جس کے دوران خودکشی کے واقعات زیادہ سے زیادہ پیش آتے ہوں یعنی یہ دیکھا جانا چاہئے کہ آخر خودکشی کرنے والے فوجی کس عمر اور سرویس یا ملازمت کے کس مرحلے میں زیادہ خودکشیاں کرتے ہیں۔ اس جائزہ کا نتیجہ اگر منفی برآمد ہو تو فوری طور پر پیش ورانہ کونسلنگ Buddy System، گھریلو مسائل اور ان کے حل جیسے اقدامات کرنے چاہئے۔
فوجیوں میں خودکشی کے واقعات کو روکنے کیلئے سپاہیوں کو دی جانے والی مراعات وغیرہ کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے۔ تعیناتی کی بنیاد پر مختلف پے اسکیل اور الاؤنس رکھنے کی بجائے چاہے اس جگہ پر شورش کے مسائل ہوں یا مشکل خطہ سیاچن الاؤنس کا مشترکہ ماڈل استعمال کیا جانا چاہئے کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ الاؤنس کے معاملے میں آفیسر رینک سے نیچے کے جو اہلکار ہیں، ان سے بہت زیادہ تعصب برتا جاتا ہے جبکہ الاؤنس کے معاملے میں سب کے ساتھ انصاف کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک مشترکہ قدر پر مبنی اقدام کی ضرورت ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ خودکشی، برادرکشی اور طبعی ہلاکتوں کے ذریعہ فوجیوں کی جانوں کا اتلاف ہندوستان کی تمام جنگوں میں ہونے والی ہلاکتوں سے زیادہ ہونے کا امکان پایا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو فوج میں خودکشی کا رجحان دراصل آزادی کے بعد سے فوج میں پایا جانے والا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کا پیشہ ورانہ جائزہ لینے یا تجزیہ کرنے اور مکمل سرکاری انداز اپنانے کی شدید ضرورت ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اس کا تعلق صرف دفاع یا فوج سے نہیں بلکہ ہمارے ملک کی فوجی سلامتی سے بھی ہے۔