قرآن

   

اور نہیں پیدا فرمایا ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیل کے طورپر۔ (سورۃ الدخان۔۳۸)
تبع کی قوم نے بھی یوم الحساب کا انکار کردیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رنگ رلیاں منانا اور جی بھرکر عیش کرنا ان کی زندگی کا مقصد بن گیا، جو ان کی تباہی کا باعث ہوا۔ اے اہل مکہ! تم بھی روز قیامت کا انکار کرکے مکافات عمل کے اٹل اصول سے غافل بن گئے ہو، کبھی اس کے انجام پر بھی غور کیا کرو۔ اس آیت میں ان کی توجہ کائنات کے حکیمانہ اور دقیق نظام کی طرف مبذول کرائی گئی ہے۔
اس کارخانۂ ہستی کے ہر پرزہ میں جو نظم و ضبط پایا جاتا ہے، اس کے نظام میں جو سنجیدگی اور گیرائی نظر آرہی ہے، اس کے مشاہدہ کے بعد کوئی شخص یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ یہ سب کچھ کھیل تماشہ ہے اور اس کے بنانے والے نے اسے محض تفریح طبع کے لئے بنایا ہے۔ کائنات کی ہر چیز پکار پکارکر کہہ رہی ہے کہ میرا صانع بڑا حکیم ہے، اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں، ہر چیز بامقصد ہے۔ جب پتھر اور روڑے بھی بیکار نہیں تو اس خلاق عظیم کا یہ حسین و جمیل شاہکار حضرت انسان جسے دیگر ان گنت خوبیوں کے علاوہ عقل و شعور کی نعمت بھی بخشی گئی ہے، اس کی زندگی بھلا بے مقصد کیسے ہوسکتی ہے، اس کے اعمال و افعال بے نتیجہ کیسے ہوسکتے ہیں۔ قیامت آئے گی اور ضرور آئے گی، اس روز تم اپنے خالق کے روبرو پیش کئے جائیں گے، جہاں بیگانوں سے بیگانگی کا اظہار کیا جائے گا اور اپنے عاشقانِ دل فگار پر ابرکرم کھل کر برسے گا۔