قرآن

   

اس نے رواں کیا ہے دونوں دریاؤں کو جو آپس میں مل رہے ہیں، ان کے درمیان آڑ ہے آپس میں گڈ مڈ نہیں ہوتے ۔(سورۂ رحمٰن ۱۹۔۲۰)
جب آپ کسی جانور کو چرنے کیلئے کھلا چھوڑ دیں تو کہا جاتا ہے مرجت الدابۃ ۔ اسی لیے چراگاہ کو بھی عربی میں مرج مروج کہتے ہیں۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں پانی میٹھے اور کھاری کو آزاد چھوڑ دیا ہے۔ اپنی اپنی بہنے کی جگہوں میں بہے چلے جارہے ہیں۔ گاہے گاہے آپس میں مل بھی جاتے ہیں، لیکن ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں ہوتے۔ قدرت نے ان دونوں کے درمیان ایک ایسی رکاوٹ قائم کردی ہے جو دکھائی نہیں دیتی لیکن مضبوط اتنی ہے کہ انہیں آپس میں گڈ مڈ نہیں ہونے دیتی۔ میٹھا پانی الگ اور کڑوا الگ میلوں ایک ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مراد آباد سے ہم نینی تال کیلئے روانہ ہوئے۔ ریلوے کا آخری اسٹیشن شاید کاٹھ گودام تھا۔ رات وہاں بسر کی اور شوق سیاحت میں فیصلہ یہ کیا کہ یہاں سے پیدا سیر وسیاحت کرتے ہوئے نینی تال جائیں گے۔ راستے میں ہم نے دو مختلف وادیوں سے دو نالے آتے ہوئے دیکھے۔ ایک کا رنگ نیلا تھا اور دوسرے کا رنگ سفید ۔ وہ ایک جگہ آکر اکٹھے ہوجاتے ہیں اور کئی فرلانگ تک ہم اس کے کنارے کنارے چلتے گئے۔ دونوں پانی یکجا بہنے کے باوجود آپس میں خلط ملط نہ ہوئے۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔ سمندر میں سفر کرنے والے لوگوں نے عجیب عجیب انکشافات کئے ہیں کہ سمندر میں جہاں کھاری پانی ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے اس کے عین وسط میں میٹھے پانی کے قطعات ہوتے ہیں۔ بحری سفر کرنے والے ان سے اپنے ذخائر بھرلیتے ہیں ۔اے جن وانس تم کہاں تک اپنے ربِّ کریم کی نعمتوں کا انکار کرتے رہو گے اور اس کے کس کس انعام کی ناشکری کروگے۔